ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ تومنظرعام پرنہیںآئی لیکن وزیراعظم کی طرف سے انکوائری رپورٹ کی روشنی میںفیصلے ضرور سامنے آئے۔وزیراعظم ہائوس کے اعلامیے کے فوراََبعدپاک فوج کی طرف سے ٹوئیٹ کرکے اعلان کیاگیاکہ’’ نامکمل نوٹیفیکیشن مستردکرتے ہیں‘‘۔یہ ٹوئیٹ کیاآیاکہ میڈیاپرطوفان کھڑاہوگیا۔جنرل قمرباجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعدایک تاثردیاجارہاتھاکہ اب حکومت اورفوج ایک ہیںبلکہ فوج ایک عام ادارے کی طرف حکومت کے ماتحت کام کریگی۔کوئی فکرنہیں اورکوئی مسئلہ نہیں۔کوئی اس حکومت کو2018کیا 2023تک نہیں ہلاسکتا۔عمران خان کوبھی مایوسی ہوئی لیکن پانامہ لیکس کے مقدمے کی وجہ سے انکی سیاست چلتی رہی اورپھرعمران خان اورجنرل باجوہ کی ملاقات سے انکوتقویت ملی جس پرعمران خان نے صرف اتناردعمل دیاکہ فوج کے سپہ سالارجمہوریت کے ساتھ ہیں۔ان حالات میں ڈان لیکس پرISPRکے ٹوئیٹ نے سب کوچونکادیا۔وزیراعظم نوازشریف نے اتوارکادن قریبی ساتھیوںسے صلاح مشورہ کرکے گزارااورکہاکہ تمام اداے ملک کی ترقی کیلئے کام کررہے ہیں۔اداروں کے درمیان محاذآرائی نہیں ہونی چاہئے۔اجلاس میںاس بات پراتفاق کیاگیاکہ جوبھی فیصلہ ہوگاجمہوریت کی مضبوطی کیلئے ہوگااوراگرضرورت پڑی تونظرثانی والانوٹیفیکیشن دوبارہ جاری کیاجاسکتاہے۔وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے توگزشتہ روزہی کہہ دیاتھاکہ اداروں کے درمیان یوں بات نہیں ہوتی۔ایسے ٹوئیٹ جمہوریت کیلئے زہرقاتل ہیں۔ٹوئیٹس سے معاملات ہینڈل کرنابدقسمتی ہے۔ وزیراعظم محب وطن ہیں جبکہ عمران خان نے کہاکہ نیوزلیکس فوج کوبدنام کرنے کی سازش تھی حکومت رپورٹ جاری کرے۔سیدخورشیدشاہ نے کہاکہ ملکی مفادپرسمجھوتہ ممکن نہیں۔2کوفارغ کرکے باقیوں کوبچانادرست نہیںمستردکرتے ہیں۔شیخ رشید،سراج الحق،جنرل مشرف اورڈاکٹرطاہرالقادری نے بھی حکومتی نوٹیفکیشین کے خلاف مذمتی بیانات دئیے۔وزیرخزانہ اسحاق ڈارحکومت کے تمام معاملات کودیکھتے ہیںا ورہربحران کوحل کرنے کیلئے اپنے توانائیاں لگاتے ہیں انہوںنے کہاکہ وزیراعظم سے سفارشات کے پیرا18جس کے دوحصے ہیں‘ کے ایک حصے پرایکشن لینے کافیصلہ کیاگیا۔ ڈان لیکس کا معاملہ سامنے آنے کے بعدمیں نے سب سے پہلے کالم لکھا تھاقومی سلامتی پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوناچاہئے اورنہ بلاوجہ پرویزرشیدجیسے سیاسی راہنمائوں کے ساتھ زیادتی ہونی چاہئے۔جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں ڈان لیکس کامعاملہ شروع ہواتھاان کے جانے کے بعدیہ ٹھنڈا پڑ گیا تھا اب انکوائری رپورٹ توجاری نہیں ہوئی لیکن وزیراعظم کا ایکشن سامنے آگیاہے فوج کے ٹوئیٹ نے بھونچال پیدا کردیاہے اورسوال پیداہوگیاہے کہ حکومت آگے یافوج۔ پاک فوج کے ترجمان کے ٹویٹ کی زبان پرسخت تنقیدکی جارہی ہے۔حکومت اورفوج کاآمنے سامنے آنا درست نہیں۔ ادارے مل کرہی چل سکتے ہیں کیونکہ فوج سول حکومت کی ماتحت ہے اس لئے آئینی طورپروزیراعظم کے احکامات کوکیسے مستردکرسکتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں قومی سلامتی اورجمہوریت کی اپنی اپنی تعریف کی جاتی ہے فوج کی طرف سے کہاگیا ٹوئیٹس کسی طرح بھی حکومتی فیصلے کو مسترکرنے کاکسی کوبھی اختیارنہیں ہوتا۔ادارے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہونگے توملک کیسے چلے گا۔ نظام کیسے چلے گا جمہوریت کیسے چلے گی فوج کی عزت واحترام ہم سب کافرض ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ ایک متوازی حکومت بنائی جائے۔ 2000ء میں جب ARD بنائی تھی توہمارے سامنے سب سے بڑاٹاسک یہ تھاکہ فوج کی مداخلت کوہمیشہ ہمیشہ کیلئے کیسے روکا جائے۔نوابزادہ نصراللہ خان،سہیل وڑائچ اورمیںنے اس پرمحنت کی لندن ،دبئی اورجدہ کے دورے کئے نوابزادہ نصراللہ خان کی وفات کے بعدمیثاق جمہوریت پردستخط ہوئے جس کی شق22میں کہاگیاکہ’’ہم فوج یافوج کی حمائیت سے قائم ہونے والی حکومت میں شامل نہیں ہونگے کوئی پارٹی اقتدارمیں آنے کیلئے فوجی حمائیت حاصل کرنے یاجمہوری حکومت کوغیرمستحکم کرنے کی کوشش نہیں کریگا‘‘۔اسی طرح شق32سے لیکر35تک فوج کے ساتھ سول حکومت کے تعلقات کے بارے میں کہاگیاکہ ’’آئی ایس آئی،ایم آئی اوردیگرسکیورٹی ایجنسیوں کاوزیراعظم سیکرٹریٹ ،وزیردفاع اورکابینہ ڈویثرن کے ذریعے منتخب حکومت احتساب کرے ۔ان کے بجٹDCCان کے متعلقہ وزارت کی منظوری کے بعد منظورکرے‘‘۔’’فوجی حکومتوں کی جانب سے آئین میں کی گئی تمام تراجم کاجائزہ لیاجاناچاہئے‘‘۔’’دفاعی بجٹ بحث اورمنظوری کیلئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا چاہئے‘‘۔’’ فوج کوزمینوں کی الاٹمنٹ اورچھانیوںسے متعلق قانون سازی وزارت دفاع کے دائرے میں آنی چاہئے ۔جنرل راحیل شریف کے دورمیں کرپشن پربات ہوتی تھی اوران کاموقف تھاکہ دہشتگردی کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خاتمے کیلئے جنگ ہونی چاہئے۔پوری قوم جنرل راحیل شریف کے ساتھ کھڑی تھی جنرل راحیل شریف ایک ایسا پودالگا کر چلے گئے جوآج بھی قوم کی آوازہے۔ہرطرف کرپشن کے خلاف جنگ ہورہی ہے اشرافیہ کی لوٹ مارپرپوری قوم ایک ہے لیکن جنرل باجوہ کاحکومتی اعلان مستردکرنے کاٹوئیٹ کسی کوپسندنہیں آیا۔ہمارے دوست اورتھنک ٹھینک Nipe کے وائس چیئرمین بریگیڈئر (ر) نوازش علی نے بڑاسخت ردعمل دیاہے انہوںنے لکھاہے ’’پاکستان خداکے فضل وکرم سے ایک ایسامنفرد ملک ہے جہاں آرمی اپوزیشن کارول اداکرتی ہے جب وہ حکومت میں نہیں ہوتی انہوںنے بڑے دکھ سے لکھاکہ دونوں اطراف سے ’’دب کے رکھو‘‘کی پالیسی اختیارکرنی چاہئے جب تک بڑانقصان نہیں ہوتا۔ہمارے دوست یونس خان پیرس میں ہوتے ہیں تمام پاکستانیوں کے لئے دیدہ و دِل فرش راہ بچھاتے ہیں انہوںنے پیغام دیاکہ"I Stand with democracy not Nawaz Sharif, Tweet Registered"بریگیڈئرنوازش کی حب الوطنی پرکوئی شک نہیں کیاجاسکتاانہوںنے پاک فوج میں ہوتے ہوئے ملک کی خدمت کی ہے اورآج بھی ملک کیلئے درددل رکھتے ہیں ۔ہم سب پاک فوج کے ساتھ ہیں لیکن یارملک کوتوچلنے دیں جمہوریت اوراداروں کومضبوط بنائیں۔متوازی نظام بنائینگے توآنارکی پیداہوگی۔فوج کواختلا ف رائے کاحق ہے لیکن اس کافیصلہ ٹوئیٹ میں نہیں ہوناچاہئے فوج کودائرہ کارمیں رہتے ہوئے ردعمل دیناچاہئے اورمعاملے کوٹھیک کراناچاہئے اسی طرح حکومت کوبھی اداروں کوساتھ لیکرچلناچاہئے ادارے مضبوط ہونگے توملک چلے گاجمہوریت چلے گی ۔سول حکومتوںمیں آمرانہ سوچ بھی نہیں ہونی چاہئے۔سپریم کورٹ نے پہلے ہی وزیراعظم کوکابینہ کی مشاورت کاپابندکرکے جمہوریت کوپروان چڑھایا ہے ۔اپوزیشن اورخصوصی طورپرعمران خان کوردعمل سوچ سمجھ کردیناچاہئے۔بہترین نوراکشتی اورمفادات کی سیاست ہورہی ہے۔اربوں روپے خرچ کرکے 15قومی اسمبلی کی سیٹیں پنجاب سے لینے کے خواب دیکھ رہے ہیںبہرحال خواب دیکھنے پرپابندی نہیں لگائی جاسکتی لیکن جمہوریت کے پودے کوجڑسے نہیں اکھاڑناچاہئے بلکہ راستے میں آنے والی رکاوٹوں کودورکرناچاہئے۔جمہوریت ہوگی توہم ترقی کرینگے۔ چاروں صوبوں کشمیر اور GB کا ساتھ مضبوط ہوگا۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات
Apr 22, 2024