وہ قومیں جن کے افراد باصلاحیت اور محنتی ہوں، جن کی قیادتیں حکمت و بصیرت والی ہوں۔ جہاں قانون کی حکمرانی اور امن و امان کا دور دورہ ہو۔ احتساب کا مضبوط نظام ہو وہی قومیں باعزت و باوقار کہلاتی ہیں۔ تحریک پاکستان کی قیادت پر غور کیا جائے تمام ولی صفت لوگ تھے۔ ان میں حکمت و بصیرت کے ساتھ سادگی اور خود احتسابی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ نامساعد اور بے سر و سامانی کے حالات میں ان عظیم ہستیوں نے کاروبار مملکت کو جس خوش اسلوبی اور کامیابی کے ساتھ آگے بڑھایا اس کی مثال تاریخ میں کم کم نظر آتی ہے۔ ہر کردار ایثار و اخلاص کے ہزار داستان پر مشتمل ہے تب جا کر کہیں مملکت خداداد کامرانی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکی مگر بعد کے آنے والے سفلے اور خود غرض حکمرانوں نے ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا جس سے ملکی سالمیت، بقا اور استحکام بھی خطرے سے دوچار نظر آتا ہے۔ مملکت کا ہر محکمہ اپنا افادیت کھو بیٹھا، ہر ادارہ کھوکھلا ہو چکا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جانچ پڑتال کا نظام معطل ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت نہیں۔ پارلیمنٹ چند لوگوں کی غلام نظر آتی ہے۔ تحقیقاتی ادارے بے اعتبارے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سپریم کورٹ سود کے حق میں فیصلہ دے رہی ہے۔ اب تو پانامہ لیکس نے تیسرے بار بننے والے وزیراعظم کے خاندان کو بھی ملوث کر لیا۔ ایسی بددلی اور مایوس کن حالات میں شاہ مردان شاہ پیر صاحب پگارو کی احتساب اور اکائونٹی بلٹی کی دوہائی کانوں میں گونجتی ہے۔ کسی پاکستانی اعلیٰ شخصیت یا رہنما نے اتنے تسلسل سے احتساب کا مطالبہ نہیں کیا۔ جیسے پیر صاحب پگارو مسلسل احتساب کا مطالبہ دہراتے رہے تھے۔ بعض اوقات تو وہ اس معاملے میں کچھ تلخ بھی ہوئے۔ ایک مقام پر حضرت پیر صاحب فرماتے ہیں۔ "میں جس انداز میں لٹیروں، مجرموں، پتھاریداروں ملک و ملت کو نقصان پہنچانے والوں کی نشاندہی کرتا رہا ہوں۔ اگر پیپلز پارٹی والوں کا بس چلے تو ان میں سے کوئی مجھ سے جھگڑا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ باری تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ حقیقت میں مبنی باتیں عام لوگوں کو معلومات کے لئے واضح کرتا ہوں "کراچی کے حالات سے دلبرداشتہ پیر صاحب فرماتے ہیں۔" کراچی میں امن قائم کرنے کے لئے مارشل لاء لاگو کیا جائے۔ عوامی قوت کراچی کے حالات خراب کرنے میں ملوث نہیں ہے۔" پیر صاحب پگارونے 1995ء میں ڈاکٹر اجمل نیازی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں فرمایا "اصلاح ممکن ہے۔ پہلے احتساب پھر انتخاب۔ احتساب نہیں ہوا چاہے تو چاہے کتنے انتخاب کروالو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ سارے سیاست دان گو تھرو (go through) ہیں بس پل تھرو (pull through) کا انتظار ہے۔ اصلاح کے دو طریقے ہیں ۔ بندے سے بندہ حساب کتاب لے یا خدا بندے سے حساب کتاب لے۔ اصل اسلام کچھ اور ہے ہمارا اسلام کچھ اور ہے۔ احتساب تو وہ ہو گا گرین کارڈ یا فارن بینک اکائونٹس والا بھی کوئی بچ نہیں سکتا۔ پیر صاحب ایک دوسرے بیان میں فرماتے ہیں کہ حکمرانوں سمیت کوئی بھی بھاگ نہیں پائے گا۔ کسی کے بھی زر کام نہیں آئے گا۔ چور اورلٹیرے مارے جائیں گے اور جو بچیں گے شکر ادا کریں گے۔ فوج وہ کام شروع کرتی تو چنگیز خان کی لسٹ میں آ جاتی پر اب کہا جائے گا انصاف ہو گا پر پاکستان لیبیا نہیں بنے گا۔
2003ء میں ایک نجی چینل میں پی جے میر کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا "پاکستان کو کچھ عرصہ کے لئے آمریت چاہئے تاکہ بدمعاشوں سے نجات ملے اس کے بعد آدمیوں سے کہا جائے کہ پارٹیاں بنائیں پھر میدان میں چھوڑ اجائے۔ مولویوں سے کہا جائے کہ صرف خدمت اور تبلیغ کا کام کریں سیاست ان کا کام نہیں۔ نہ ان کا کام تھا نہ اس طرف جائیں پھر کوئی بات بنے گی۔ ہمارے لئے قرآنی ایک مثال ہے کہ حضرت موسیٰ جب آئے تو قوم کی حالت کیا تھی اور کیا ہوا؟ قتل عام ہوا، موچڑے لگے، جوتے لگے اس کے بعد جو بچے وہ سدر گئے۔ فی الحال احتساب ان کا ہو جو ثابت ہو کہ برے ہیں۔ باقی کو ہراساں کر کے فرمانبردار کیا جائے، منظم کیا جائے۔ جو کام بھٹو صاحب کر گئے۔ بے اصول اور جاہل آدمی کو بے لگام کر گیا اس کو پھر لگام دی جائے"
پیر صاحب پگارو 2004ء میں سہیل وڑائچ کے پروگرام میں محو گفتگو تھے جس میں سہیل وڑائچ نے سوال کیا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ عوامی عہدے یا وزیراعظم کی بجائے صدر پاکستان بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ پیر صاحب پگارو نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ نہیں غلط ہے، غلط ہے۔ جس قوم میں accountiability (احتساب) کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے اوریہ ملک جس میں accountiability ہوتی ہی نہیں ہے وہاں کچھ بھی نہیں بننا چاہتا۔ سہیل وڑائچ آخر کیوں؟ پیر صاحب: کیا ضرورت ہے جب سر دینے والے موجود ہیں تو ہم منصور کیوں بنیں؟
ایک اور مقام پر حضرت پیر صاحب فرماتے ہیں کہ ملک کی صورت حال نہایت خراب ہے اور حالات فوجی انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عوام بڑی تبدیلی لائے گی۔ انقلاب آیا تو ملک کا خزانہ لوٹنے والے ملک سے باہر نہیں جا پائیں گے۔ چوروں اور پتھاداروں کا خاتمہ ہو کر رہے گا۔ ملک و قوم کی بھلائی اور بہتری ہو گی۔ آپ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ انقلاب اس وقت آئے گا جب آپ سوئے ہوئے ہونگے۔ آپ کو خبر ہی نہ ہو گی کہ کون کون مارے گئے۔ سیاست ختم ہو جائے گی۔ آپ تاریخ والوں سے پوچھو کہ میں کتنا درست ہوں؟ ہم باری تعالیٰ کے نام پر زندہ رہتے ہیں۔ ہمارے پاس نہ جاگیر ہے نہ سرداری جو بہتر ہے وہ بہتر رہے گا۔
قارئین کرام! حضرت پیر صاحب نے احتساب پر جتنا زور دیا ایک یا دو کالم اس کے لئے ناکافی ہیں۔ accountiability (احتساب) پر پوری کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ انشاء اللہ آئندہ کالم میں بھی پیر صاحب کے احتساب کے حوالے سے فرمودات آپ تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024