حُسن ہو تو نخرہ اچھا لگتا ہے۔ حُسن نہ ہو تو نخرہ برا لگتا ہے۔ آج کل سیاست میں بھی حُسن کے بغیر نخرے کا چلن عام ہے۔ اس پر اکثر موجودہ وزیر پورے اترتے ہیں۔ وزیر کا ’’حسن‘‘ اس کی پالیسیاں ہوتی ہیں جبکہ وزیر کی ’’اکڑ‘‘ اس کا نخرہ کہلاتی ہے۔ بات کو آسان زبان میں سمجھنے کے لئے چند مثالیں دیکھ لیتے ہیں۔ وزارت خارجہ کو دو وزیرنما مشیر چلا رہے ہیں جن کی پالیسیاں بین الاقوامی سطح پر پھیکی اور ملک کے اندر ان کی اکڑ تیکھی ہے۔ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی انٹرنیشنل فورمز پر دبے دبے اور گھٹے گھٹے رہتے ہیں۔ وہ باہر کی دنیا میں وزیر خارجہ والی شان تو حاصل نہیں کرسکے لیکن طارق فاطمی ملک کے اندر اپنی اہلیہ کو ایم این اے بنوا کر اپنا لوہا منوا چکے ہیں جبکہ دوسری طرف گزشتہ کئی مہینوں سے قدرت پاکستان کے حق میں گیند کروا رہی ہے۔ بھارت مسلسل ایسی شارٹ کھیل رہا ہے جس پر اُسے بین الاقوامی سطح پر آسانی سے کیچ کیا جاسکتا ہے۔ یعنی پہلے بھارتی سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دوول نے پاکستان کیخلاف دفاع کیلئے حملہ کرنے کی بات کی پھر بھارت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے پاکستان کیلئے دہشت گردوں کے ساتھ دہشت گرد بن کر نمٹنے کی دھمکی دی۔ اور تو اور بھارتی وزیراعظم مودی نے پاکستان کیخلاف بھارت کے اب تک کے سب سے بڑے جرم کا اعتراف بھی کرلیا۔ پھر یہ بھی مبینہ خبریں آئیں کہ بھارتی ایجنسیاں پاکستان میں بدامنی کیلئے براہِ راست رقم اور اسلحہ فراہم کرتی ہیں۔ یہ اور ان جیسے بہت سے شواہد کو لیکر پاکستانی دفتر خارجہ بھارت کو بین الاقوامی سطح پر کائونٹر کرنے کیلئے ایک عظیم مہم کا آغاز کرسکتا تھا مگر ہمارے دفتر خارجہ نے بانجھ پن کا ثبوت دیا اور آپس میں بڑبڑ کرنے کے علاوہ کچھ نہ کیا۔ اب اقوام متحدہ میں ان ایشوز کو اٹھانے کا مشورہ ہو رہا ہے۔ دفتر خارجہ کو یہ عقل دیر سے آئی یا کسی ادارے نے انہیں عقل کے ناخن دیئے؟ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان سے بہتر تعلقات کا جو جذبہ ظاہر کیا تھا اس میں مسلسل کمی پاکستانی دفتر خارجہ کا ایک اور کارنامہ کہلائے گا۔ مذکورہ بالا پالیسیوں کی جھلک کو دفتر خارجہ کا حسن کہا جاسکتا ہے۔ احسن اقبال ایک اور ایسے وفاقی وزیر ہیں جو نیچے دیکھنا بھول چکے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں جب وہ ٹاک شوز میں بولتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ اگر انہیں اقتدار ملا تو یہ وزارت اور انکساری کا رول ماڈل ہوں گے مگر دو برس میں حالات کیساتھ ساتھ ان کا مزاج بھی بدل گیا۔ پتہ نہیں مزاج بدلا یا اصل مزاج سامنے آیا۔ گزشتہ دو برسوں سے وہ جن پالیسیوں کا بگل بجا رہے تھے اُن کا وجود اب تک کہیں نظر نہیں آتا۔ البتہ اب انہوں نے اقتصادی راہداری کا نیا سائرن آن کر دیا ہے۔ حالانکہ اقتصادی راہداری دراصل ہماری کسی بھی سیاسی حکومت سے زیادہ چین اور ہماری سیکورٹی فورسز کا خواب ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیلئے ابتداء سے آخر تک پاکستان کی سب سیاسی حکومتوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا مگر سیکورٹی فورسز کی مسلسل خواہش نے ہمیں ایٹمی طاقت بنایا۔ احسن اقبال اقتصادی راہداری کی اس حقیقت کو بھول کر اس کا سنگ میل بننا چاہتے ہیں۔ اقتصادی راہداری تو ہزاروں کلومیٹر لمبی ہے، احسن اقبال بنی گالہ کی چند کلومیٹر لمبی سڑک نہیں بنوا سکے جس پر وہ وزیر بننے سے پہلے دن رات گزرتے تھے۔ نمونے کے طور پر احسن اقبال کے نخرے اور اُن کی پالیسیوں کا فی الحال اتنا ذکر ہی کافی ہے۔ خواجہ آصف وزیر دفاع اور وزیر پانی و بجلی ہیں۔ دفاع کے بارے میں ان کا علم اُس فرد سے تھوڑا سا ہی زیادہ ہوگا جو روزانہ اخبارات پڑھ کر دفاع کے بارے میں جان لیتا ہے۔ باقی رہا پانی و بجلی کا معاملہ۔ اس پر کچھ لکھنے یا کہنے کی بجائے کوئی بھی جاکر کسی بھی عام پاکستانی سے پوچھ لے۔ وہ وزارت پانی و بجلی پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے پہلے اپنی مزاجی حیثیت کیمطابق واپڈا کو بددعائیں یا گالیاں ضرور دیگا۔ خواجہ آصف ٹاک شوز اور پارلیمنٹ میں اپنی گفتگو سے ایسا کرنٹ چھوڑتے ہیں کہ لگتا ہے جیسے واپڈا کی ساری بجلی انکے انگ انگ میں بھر گئی ہے لیکن خواجہ آصف کے نخرے اور انکی پالیسیوں کے حسن سے لوگ گرمیوں میں بلبلا رہے ہیں۔ انوشہ رحمان وفاقی کابینہ میں مرد وزراء کے شانہ بشانہ وزیر ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اپنی وزارت کی پالیسیاں بتاتے ہوئے اپنا سارا انگریزی علم ناظرین پر انڈیل دیتی ہیں۔ اکثر تو اینکر پرسنز کو بات بھی نہیں کرنے دیتیں۔ ان کو دیکھ کر کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ مستقبل میں وہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بننے والی ہیں۔ تاہم ابھی تک انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت چلانے کا قوم پر احسان کررہی ہیں۔ انکی تمام تر بھاگ دوڑ اور جدید علم کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کو انٹرنیٹ فراہم کرنیوالی زیرسمندر لائن پہلے کی طرح اب بھی اکثر ٹوٹ جاتی ہے۔ پچھلے دو برسوں میں وہ پاکستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سیکٹر میں کیا تبدیلیاں لائی ہیں یا کیا جدت لیکر آئی ہیں؟ یہ سیکرٹ انفارمیشن ابھی تک اُنکی ذات سے باہر نہیں آئی۔ البتہ انفارمیشن ٹیکنالوجی پر انکے ماہرانہ اور طویل ترین لیکچروں کو سن کر دھڑکا لگ جاتا ہے کہ ایسے ماہر کو کہیں امریکہ چرا کر نہ لے جائے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید بہت پرانے جمہوری ہیں۔ انہوں نے جوانی جمہوریت میں گزاری اور اب بڑھاپا وزارت میں گزار رہے ہیں۔ جمہوریت کی عملی تعلیم یہی ہوتی ہے کہ عام لوگوں کو بھی اہم سمجھا جائے لیکن پرویز رشید صرف اہم صحافیوں کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں جن کی تعداد چند درجن ہے جبکہ پاکستان کے ہزاروں صحافی عام صحافی ہیں۔ گویا پرویز رشید کے نزدیک پورے پاکستان کی صحافت صرف چند درجن صحافیوں پر مشتمل ہے جن میں زیادہ تر اینکر پرسنز ہیں۔ اسکے علاوہ وہ ایک سرکاری بُک سٹور کی تقریبات میں بھی نظر آتے ہیں۔ دو برس کے دوران انہوں نے انفارمیشن منسٹری، ویج بورڈ اور ہزاروں غیراہم صحافیوں کی فلاح و بہبود کیلئے کون سی پالیسیاں بنائی ہیں؟ ن لیگ کی حکومت کے تحت مختلف وزارتوں کی پالیسیوں کے نتائج کوسوں میل دور ہیں۔ اگر یہ مکمل ہو گئے تو ان کا فائدہ موجودہ نسل کے بعد آنے والی تیسری نسل ہی اٹھا سکے گی مگر ٹاک شوز میں وزیروں کا موجودہ نسل پر احسان ختم ہونے کو نہیں آتا۔ گویا وزیر مغرور اور پالیسیاں ماٹھی ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38