بجلی لوڈشیڈنگ کیساتھ ساتھ ایم کیو ایم کی ’’لوڈشیڈنگ‘‘ بھی زیربحث آگئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل بھی پاکستان میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی طرح ناممکن ہی لگتا ہے، مگر اب بظاہر تو یہ نظر آرہا ہے کہ ریاستی اداروں سے لے کر سول حکومت تک سب اسی کیلئے کوششیںکررہے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکل سکے۔جہاں تک موجودہ حکمران پارٹی مسلم لیگ ن کی قیادت کا تعلق ہے، وہ اچھی خواہشات ضرور رکھتی ہے۔ خوشنما دعوے بھی کرتی ہے اور پْرکشش نعرے بھی لگاتی ہے۔ مگر وہ اس پر کس حد تک عمل پیرا ہوتی ہے، یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ صدر پاکستان ممنون حسین نے احتساب اور بہتر طرزِ حکمرانی کے حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انکی خواہش ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہوجائے۔ایک اور خواہش کا اظہار وزیر مملکت عابد شیر علی نے کیا۔ جب دورانِ انٹرویو میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کی حکومت نے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا پہلے تین مہینے کا وعدہ کیا تھا، پھر چھ ماہ اور پھر دو سال، مگر وہ وعدہ وفا نہ ہوسکا۔ اب رمضان میں سحروافطار میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا یقین دلارہے تھے، اس پر بھی عمل نہیں ہوسکا تو وزیر مملکت عابد شیر علی نے جواب دیا کہ رمضان میں لوڈشیڈنگ نہ کرنا وزیراعظم کی خواہش تھی۔ میرا کہنا تھا کہ حکومتیں پلاننگ اور مینجمنٹ سے چلتی ہیں، خواہشات تو سہانا خواب ہوتے ہیں جو پورے نہیں کیے جاسکتے۔ شاید حکمرانوں کیلئے یہ بہت معمولی بات ہو۔ مگر اس لوڈشیڈنگ نے تو زندگیاں نگلنا شروع کردی ہیں۔ کراچی میں اب تک 15 سو کے قریب لوگ جانوں کی بازی ہار چکے ہیں۔ اسے شدید گرمی کا شاخسانہ قرار دیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ کراچی میں دس سالہ گرمی کا ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے، مگر ان اموات سے موجودہ حکمرانوں کو قطعاً بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کراچی میں پڑی ہے، اس سے انکار نہیں، لیکن اگر بدانتظامی نہ ہوتی تو اتنی جانوں کا ضیاع ہرگز نہ ہوتا۔ ہسپتالوں میںمریضوںکیلئے جگہ نہیںتھی۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بلبلارہے تھے۔ پانی کا مسئلہ کراچی کا بڑھ چکا ہے۔ان تمام مسائل کو سامنے رکھا جائے تو یہ اموات شدید بدانتظامی کی وجہ سے ہوئی ہیں اور انکی ذمہ داری سب سے پہلے صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے، جہاں سائیں وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی حکومت ہے جن کے بارے میں بدقسمتی سے یہ مشہور ہے کہ وہ کوئی کام کرتے ہیں نہ ہی ان سے اس عمر میںکام لینا چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پیپلز پارٹی اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لاتیں۔ سندھ میں کسی سرگرم شخص کو وزیراعلیٰ بناتی اور سندھ پر مکمل فوکس کرتی کیونکہ پی پی پی کی سرواوئیویل کی آخری اْمید سندھ میںگڈ گورننس سے ہی تھی، مگر اب تو یہ یقین ہوچلا ہے کہ شاید پی پی خود سنبھلنے کیلئے تیار نہیں۔ اس سے پہلے کراچی میں ہونیوالی قتل وغارت کو سندھ حکومت قابو کرسکی نہ ہی اس نے کبھی سنجیدگی سے اس بارے میں سوچا ہے۔ آخرکار رینجرز نے فوج کی سرپرستی میں امن وامان کی غیریقینی صورتحال کو کنٹرول کیا۔ گو کہ اب بھی خطرات پائے جاتے ہیں اور ان مشکلات پر مکمل قابو پانا اتنا آسان نہیں۔ لیکن بہت حد تک خرابیوں پر قابو پایا جاسکے گا۔ بتایا جارہا ہے کہ دہشتگردوں اور کرمنلز کو فنڈنگ انڈیا سے ہورہی ہے۔ انوسٹی گیشن جاری ہے، اسے منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ دیگر تنظیموں اور افراد کیلئے بھی ایک نشان عبرت بن جائے کہ وہ اپنے مفادات کی خاطر دشمن ممالک کے ہاتھوں میںنہ کھیلیں۔ جہاں تک قومی سطح پر لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ہے تو اب تک حکومت نے واہ واہ کے منصوبوں پر ہی توجہ دی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیراعلیٰ شہباز شریف نے خوب چڑھائی کی۔ ہر وقت ان کیخلاف مسلسل بولتے رہے۔ مگر وہاں بھی زمینی دنیا میں اتنے اچھے منصوبے نہیں جن کو بنیاد بناکر کہا جاسکے کہ اگلے دو یا تین سال میں لوڈشیڈنگ نہیں رہے گی۔ اب اٹھارہویں ترمیم کے تحت بجلی بنانے کا اختیار صوبوں کے پاس ہے تو پی پی پی حکومت ایسے معاہدے کیلئے سوورن گارنٹی نہیں دے رہی۔ مسلم لیگ ن وفاق میں بھی ہے اور اب نندی پور پروجیکٹ پر اربوں خرچ کرنے کے بعد بھی وہ ٹھپ پڑا ہے۔ اسکی وجوہات کئی ہوسکتی ہیں، مگر ہمیں تو اس منصوبے کے ثمرات سے غرض ہے جو حاصل نہیں ہورہے ہیں۔ سولر انرجی کا ایک واحد سو میگا واٹ کا پروجیکٹ ہے جو بہاولپور میں مکمل ہوا، اس پر بھی سوالات اْٹھ رہے ہیں۔ سولر انرجی کے پروجیکٹ جہاں چل رہے ہیں، انکی efficiency سو میگا واٹ کے پروجیکٹ کی 30 فیصد ہے۔ یعنی 30 میگا واٹ صرف اس سولر پروجیکٹ سے نیشنل گرڈ اسٹیشن میں جارہی ہے، جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ اسکے علاوہ گڈانی پروجیکٹ التوا کا شکار ہے، کیونکہ کوئلے کے منصوبوں پر عالمی پریشر ہے۔ مختلف ڈیمز ہیں۔ جن میں دیامر بھاشا، داسو اور دیگر پر سابق صدر پرویز مشرف نے تختیاں لگائیں، پھر پیپلز پارٹی نے فیتے کاٹے، اب ن لیگ کی تختیاں لگانے کی باری ہے۔ان حالات میں وزیراعظم کے اس ’’قولِ زریں‘‘ کو اپنے پلے باندھنے کے سوا کیا ہوسکتا ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ عوام کو صبر کرنا چاہیے۔ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ 2017ء میں ہوجائیگا۔ اگر یہ وعدہ بھی وفا نہ ہوا جس طرح رمضان میںنہیںہوسکا، تو یقیناً عوام کا کام تو صبر کرنا ہی ہے، مگر اگلی بار وہ کس بنیاد پر عوام کے سامنے جائینگے؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38