متحدہ قومی موومنٹ کیلئے بھارتی فنڈنگ اور اس کے سینکڑوں کارکنوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی راء کی جانب سے دہشت گردی کی ٹریننگ کے حوالے سے بی بی سی نیوز کی حالیہ رپورٹ کے منظر عام پر آتے ہی پاکستان کے محب وطن اہل دانش حلقوں میں بحث کا آغازایک فطری امر ہے۔وزیر اعظم میاں نوازشریف نے وزیرداخلہ چوہدری نثار کو رپورٹ کی مکمل تحقیقات کرنے کا ٹاسک سونپ دیا ہے۔اور ہونہار وزیر نے اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمشنر فلپ بارٹن سے ملاقات کرکے بی بی سی کی رپورٹ کی تفصیلات حاصل کرنے کیلئے برطانوی حکومت سے تعاون طلب کر لیا ہے اس حوالے سے حکومت نے برطانوی حکام کو باقاعدہ خط بھی ارسال کر دیا ہے ۔ وزیر موصوف نے بجا طور پر کہاہے بی بی سی کی رپورٹ سے اس بات کی تصدیق ہو تی ہے کہ پاکستان میں جو بھی تخریب کاری ہے اس میں بھارت کا ہاتھ ہے ۔تاہم بھارت نے بی بی سی کی رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیدیا ہے ۔ ادھر ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے بھی نہ صرف رپورٹ کو مسترد کر دیاگیا ہے بلکہ خود حکومتی صفوں میں موجود کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مرتکب عناصر کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کر دیا گیا ہے۔قائدِ تحریک الطاف حسین نے کارکنوں سے اپنے ٹیلیفونک خطاب میں مو قف اختیار کیا کہ اگر ہم واقعی بھارتی ایجنسیوں سے تربیت یافتہ ہوتے تو رینجرز کیلئے ہمیں یوں قتل کرنا آسان نہ ہوتا۔انہوں نے کہا کہ اگر وزیر داخلہ ایم کیو ایم کے خلاف بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کی تحقیقات کرنا چاہیں تو انہیں چاہیے کہ اسی میڈیا کی آئی ایس آئی کے خلاف 2008ء کی ڈاکیومنٹری کی بھی تحقیقات کرلیں۔ایم کیو ایم کی قیادت اسے جماعت کے میڈیا ٹرائل کا حصہ قرار دے رہی ہے۔کسی سیاسی جماعت کو اگر ملک دشمنی جیسے الزامات کا سامنا ہو تو یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے۔اور اگرالزامات کی تاریخ بھی کم و بیش تین عشروں تک طویل ہو تو یہ اس سے بھی بڑی بد نصیبی کی بات ہے۔ مگر ایسی صورتحال میں اسے اپنے دفاع کا پورا حق ہوتا ہے اور ایم کیو ایم اس حق سے کسی صورت بھی مستثنیٰ نہیں۔ایم کیو ایم کے خلاف ایسے ہی الزامات ایس ایس پی رائو انور اپنی پریس کانفرنس میں عائد کر چکے ہیں۔اور اسی قسم کے الزامات کی بنا پر ہی 1992ء میں کراچی اپریشن کا آغاز ہوا اور تب سے ہی ایم کیو ایم کے قائد برطانیہ میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزاررہے ہیں۔وہاں پر بھی انہیں ڈاکٹر عمران فارو ق قتل کیس اور منی لانڈرنگ جیسے مقدمات میں برطانوی تحقیقاتی ایجنسیوں کا سامنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں انکی زندگی کو خطرات لاحق ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وطن واپس آنے کی بجائے برٹش شہریت حاصل کر رکھی ہے جبکہ انکی جماعت کراچی میں دو درجن کے قریب قومی اسمبلی کی نشستیں ہر با ر جیت جاتی ہے۔اور کم و بیش ہر حکومت کا حصہ چلی آرہی ہے۔ سوال ذہن میں ابھرسکتا ہے کہ اگر حکومتی اداروں یا ایجنسیوں کو ایم کیو ایم سے خدا واسطے کا بیر ہو تو انہیں ہر بار ملک کے سب سے بڑے شہر میں اتنی بڑی اکثریت کیسے مل جاتی ہے اور اگر مان لیا جائے کہ شہر کے عوام خود ہی ایم کیو ایم دشمن قوتوں سے تگڑے ہیںتو پھر ایم کیو ایم سمیت یہ خود وہاں پر بھتہ مافیا ،لینڈ مافیااور ٹارگٹ کلرز کو بے نقاب کرنے میں ناکام کیوں ہیں۔ الیکشن میں ایم کیو ایم کی ہر بار بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی کو کسی سے خدا واسطے کا بیر نہیں۔ملکی ادارے ہر کسی کے مینڈیٹ کا احترام کرتے چلے آرہے ہیں۔ اسکے باوجود ایم کیو ایم مسلسل گھنائونے الزامات کی زد سے اورشہر کراچی بھتہ مافیااور ٹارگٹ کلنگ جیسے ملک توڑ نوعیت کے جرائم کی زد سے باہر آنے میں ناکام کیوں ہے۔یہی وہ سوالات ہیں جن سے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ ماضی کا روشنیوں کا شہر کراچی بیرونی ایجنسیوں کی کارستانیوں کی زد میں ہے اور اس میں بھی دو آراء نہیں کہ بیرونی ایجنسیوں کا اندرونی تعاون اور گٹھ جوڑ کے بغیر تسلسل سے ایک طویل عرصے تک تخریب کاری جاری رکھنا ناممکن ہے۔ اور یہ اندرونی گٹھ جوڑ کوئی عام آدمی نہیں کر سکتا ،ایسا کام کوئی منظم قوت ہی کر سکتی ہے اور یہ منظم قوت کونسی ہے دراصل یہی بات گذشتہ چند دہائیوں سے قوم کیلئے معمہ بنی ہوئی ہے۔ جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے قوم تو اسے محب وطن قومی جماعت ہی سمجھتی ہے مگر بھارتی فنڈنگ اور بھارتی ایجنسی را سے تربیت جیسے الزامات کے بعد ایم کیو ایم کی قومی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان الزامات کا مناسب دفاع کرنے کیلئے کھلے دل سے خود کو ایک قابل قبول قومی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کیلئے پیش کریتاکہ ایک ہی بارروز روز کی رسوائی سے جان چھوٹے۔کوئی شبہ نہیں کہ ایم کیو ایم کے پاس ووٹ بنک اور سٹریٹ پاور موجود ہے مگر ہر بار اس واحد دلیل کو بنیاد بنا کر واویلا کرنا کافی نہیں اور یہ مسئلے کا حل بھی نہیں۔ پنجاب اسمبلی نے اس حوالے سے تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے مطالبے پر مبنی قرار داد منظور کر کے قابل ستائش ،منصفانہ اور مثبت قومی انداز فکر کا مظاہرہ کیا ہے۔ہاں اس پر قومی اتفاق رائے بھی ضروری ہے۔ ہاںایک بات کا خیال رکھنا چاہئیے کہ ہر نتھو خیرے کا کسی کی حب الوطنی پر انگلی اٹھانا مناسب نہیں جو اداروں کا کام ہے وہ اداروں کو ہی کرنا چاہیے۔ ویسے بھی جرم جب تک ثابت نہ ہو الزام علیہ کو بے گناہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس بات کا احساس ضروری ہے کہ ایم کیو ایم کبھی مہاجر قومی موومنٹ کا نام تھا مگر اب یہ متحدہ قومی موومنٹ کا نام ہے۔کسی کو دیوار سے لگانے کا کسی کو حق نہیں تاہم قومی اداروں کو اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی سے کوئی نہیں روک سکتا۔کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کیخلاف ناپاک سازشوں میں ملوث کسی بھی سیاسی قوت کا بلاتخصیص محاسبہ کرنے میں تساہل نہ برتا جائے۔بشرطیکہ کارروائی ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہو۔لیکن یہ تو قوم کی آ ٓواز ہے۔قوم ملک کو جس بلند مقام پر دیکھنا چاہتی ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ سیاسی قیادت میں تطہیر کا عمل بلا تاخیر ہونا چاہیے۔ لیکن زمینی حقائق اس کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں اس بات کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024