ارادہ تھوک کر چاٹنے کا ہو تو کوئی روک نہیں سکتا… سیانے کہتے ہیں۔ مگر ہائے! یہ تھوکنے والے زیادہ ان میں سیاسی سرکس کے فن کار ہیں۔ بقول ان کے یہی واحد عصا اقتدار کی پیچیدہ گذرگاہوں کا کامیاب سہارا ہے (سکیٹنگ کی چھڑی کی طرح) اس کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے۔ کوچۂ سیاست میں ہر سال اس فن کا مقابلہ ہوتا ہے، اول انعام اس کو ملتا ہے جو دوسرے پر تھوکے اور جوابی باڑھ سے بچ نکلے۔ آج کل اس کھیل نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کر دیئے ہیں۔ یوں لگتا ہے لوگ بولتے کم ہیں تھوکتے زیادہ ہیں حال ہی میں ٹی وی پر اچانک ایک جانا پہچانا چہرہ نمودار ہوا اور وہ بے تحاشہ بولا سنا ہے اس ارتجال کی پشت پر کسی اندیشے کا دھکا تھا۔ صرف وسوسہ اندیشہ خوف یا کچھ اس سے زیادہ؟ مبصرین کے مطابق بوریوں میں بھرا زرکثیر، صندوقوں میں ٹھونسے کروڑوں ڈالر‘ کشتیوں ہوائی جہازوں میں لے جانے والے مسافر عینی گواہ مگر ڈالر جیب میں چلے جائیں تو پھر ہوش کسے ہوتا ہے، کون ابلتا ہے؟ٹی وی پر نمودار فن کار نے بے محابا آسمان کی جانب تھوکا تو چاروں صرف چار چاند لگ گئے۔ کیمرہ، آس پاس کھڑے عزیز و اقارب، مستقبل کا عکس اور خود اپنا چہرہ سب کچھ گہنا گیا۔ واہ کیا پچکاری تھی شاعرانہ تعلی میں پیک کے دریا بہا دیئے۔ چلیے دریا نہ سہی ندی نالہ نالی کہہ لیجئے۔ بہرحال سیلاب کی سی کیفیت پیدا ہو گئی، اب اس ناگہانی طوفان کو کون سنبھالتا‘ لوگوں نے بڑے جتن کئے، ہاتھ پائوں اور منہ مارے بند باندھنے کی کوشش کی مگر الفاظ کے پیچھے چھپے مطالب اور اندیشوں کے سیاہ بادل اور اس پر مستزاد یار لوگوں کے بین، کالیاں اٹاں کالے روڑ مینہ برسادے زور و زور۔ گرمی کے مارے لوڈشیڈنگ سے ہارے بے چاروں کو گھٹا دکھائی دی تو صدائوں میں شدت آ گئی۔ دوسری تیسری صف کے حاشیہ بردار منہ چھپا گئے۔ جو سامنے آیا رگڑا گیا۔ کہتے ہیں سیاستدان بولنے سے پہلے ہمیشہ تولتا ہے اور تھوکنے سے پہلے ارد گرد دیکھتا ہے مگر ہمارے ممدوح نے نہ دیکھا نہ بھالا۔ شاید شاہی قلعے سے کمک کی امید پر۔ ملبہ نگلنے والا ون ون ٹوٹو کا ٹرالر بھی نہ آیا اور سیلاب کے زور اور رخ کو نشانے کی جانب موڑنے کی امید بھی دم توڑ گئی۔ برسات میں اپنی فصل بچانے کیلئے غریبوں کے گھروں کو ڈبونے کے عادی رئیس وڈیرے کو شاید یہ احساس نہ تھا کہ بیگانی بلا کو اپنے گھر میں کون گھساتا ہے۔ میثاق موعودہ کا ٹرالر آیا مگر استہزاء اور ملامت کے محلول سے لدا ہوا۔ صورتحال کس کے گھر بنائے گا سیلاب بلا میرے بعد والی ہو گئی۔ جوئے کا دائو غارت گیا۔ اب تو فن کار یہ سوچتا ہو گا…
مرجھا گیا کیوں گل میثاق دوستی
دھندلاہٹوں میں کھو گیا کیوں جل پری کا عکس
ماہرین کہتے ہیں پکڑے جانے سے پہلے جرم کرنے والے کی آنکھیں جھکی رہتی ہیں مگر گرفتاری کے بعد وہ شیر ہو جاتا ہے۔ ایک دفعہ موت کی سزا سننے کے بعد مجرم نے جج کے منہ پر تھوک دیا اور غلیظ گالیاں دینے لگا۔ جج خاموشی سے اٹھا اور اپنے چیمبر میں چلا گیا۔ جب عدالت میں سناٹا چھا گیا تو مجرم دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ وکیل نے پوچھا تم جج کے سامنے دندنا رہے تھے اب کیوں رونے لگے؟ مجرم بولا مخالف کی خاموشی سے پیدا ہونے والا سناٹا موت کی اذیت سے بھی زیادہ خوفناک ہوتا ہے کیوں کہ اس حال میں سانس اور دھڑکن بھی اپنا اعتبار کھو دیتی ہے۔ گویا نشانہ چوکنے کے دکھ میں خود اپنے انجام کی خبر چھپی ہوئی ہے۔ مگر منہ سے نکلے الفاظ تو ہیرے موتی ہوتے ہیں ان کی چکاچوند تراش خراش اور حاشیہ آرائی سے زور پکڑتی ہے اور جہاں جوہریوں کی فوج ظفر موج دن رات مصروف عمل ہو وہاں بڑے منہ سے نکلا کوئی لفظ کیونکر بچ سکتا ہے۔ یار لوگ تو سادہ پتھر میں ہیرے کی چمک پیدا کر دیتے ہیں۔ جب اصلی جواہر پارے میسر آ جائیں تو منڈی میں بھاگو پکڑو کی صدا لگتی ہے۔ اب لب شیریں کے مطالب رنگ دکھا رہے ہیں اور مدعی منہ چھپا رہے ہیں کچھ فرار کچھ زیرزمین۔ ایک جوہری کہتا ہے کوچۂ سیاست کی گلیوں سے صبح و شام ہیرے موتی نکلتے ہیں، سیانے فن کار اپنی ایجاد ہتھیلی پر انڈیل کر دیکھ لیتے ہیں کہ مول کے قابل ہے یا نہیں جیسے لندن کا اداکار کرتا ہے، صبح کا مال شام تک صاف۔ لاہوری فنکار بے پرواہ ہیں ان کا مال کئی دن مہینے اور سال تک پڑا رہتا ہے، یہ کاروباری لوگ ہیں، پہلے سے پڑے ڈھیر پر تازہ سٹاک پھینک دیتے ہیں (باسی کر کے سمیٹتے ہیں وہ بھی مجبوراً کسی معاہدے کے تحت) مگر سنا ہے کوئی جی ایچ کیو نامی سوداگر جس نے اس کاروبار کو وطن کی صحت اور سلامتی سے مشروط کرنے کی ٹھانی ہے۔ یہ خبر ہے یا افواہ! مگر سانپ تو سب کو سونگھ گیا ہے۔ واللہ اعلم!
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024