2017 کے پہلے ماہ کا پہلا دن آیا اور گزر بھی گیا ۔آج’’ 2 تاریخ ‘‘ہے ۔ نہ صرف مُلکی بلکہ دنیا بھر میں’’سال ِ نو‘‘ پر تبصرے ۔ تجزیے پڑھے ۔ لکھے جار ہے ہیں ۔ سوچا کہ معمول سے ہٹ کر تجزیوں ۔ مستقبل بینی کی بجائے"دُعا" پر قلم کی سیاہی استعمال کی جائے ۔ کیونکہ’’ فطرتِ انسانی ‘‘کا ایک ہی ’’دھوبی پٹٹرا‘‘ تجزیوں ۔ پیش گوئیوں کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے ۔
کچھ سالوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ سال کے اختتام اور آغاز میں آتشزدگی۔ اجتماعی جانی ہلاکتوں میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے ۔ ازاں بعد جن پر لا پرواہی ۔ غفلت ۔ شرارت کے لیبل چڑھا کر داخلِ دفتر کر دیا جاتا ہے ۔ ہمیشہ کی طرح اب بھی بِکی اور خوب بکی ۔ لوگوں نے پی اور خوب پی ۔اتنی کے ایک ہی خاندان کے’’4-3 افراد‘‘ بیک وقت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ’’50‘‘ کے قریب ہلاکتیں ہو چُکی ہیں ۔ متعدد ابھی بھی خطرے کی حدود میں ہیں ۔ اِس حادثے کا سب سے افسوناک پہلو ایک’’بیوہ ‘‘ کے دو بیٹے زہریلی شراب پینے سے اور تیسرا رشتہ داروں کو اطلاع دیتے ہوئے ٹرین تلے آکر دم توڑ گیا ۔ اب کہانیاں چل رہی ہیں ۔سارے معاملے کا ملبہ پولیس پر ڈالا جا رہا ہے۔ سچ کیا ہے ۔تحقیق کے بعد ہی معلوم ہوگا ۔
تو جیہات پیش کی جار ہی ہیں ۔ آفٹر شیو ملایا یا صمد بونڈ ۔ یا ولائیتی بوتلوں میں جعلی ۔ ناقص بھر کر بیچی گئی ۔ کچھ بھی تاویلات دیں ۔ گرفتاریاں کریں ۔ جیلوں میں ڈالیں ۔ یہ تو خبیث ۔ موذی ۔ حرام شے تھی اور ہے ۔ اس لئے نتائج یہی نکلنا تھے ۔ یہاں تو شیر خوار بچوں کے لیے خالص دودھ عنقا ہے ۔ زندگی کی 80بہاریں دیکھ لینے والا بھی ’’صاف پانی ‘‘کو ترس رہا ہے ۔ ’’مافیاز‘‘ کے وکیل بڑے ناموں والے ہیں ۔پشت پناہ با اثر شخصیات ہیں تو پھر ڈرنے کی ضرورت کیوں ؟ جب پکڑ نہیں ۔ تو پھر بِکتی رہے گی بیشک ساری عیسائی برادری سٹرکوں پر آجائے ۔
’’مسلمانوں کو کیا مسئلہ ہے‘‘
کچھ ماہ قبل سندھ ہائیکورٹ نے’’ شراب خانوں ‘‘پر پابندی لگا دی تھی مگر اِس پابندی کو ہر جگہ چیلنج کیا گیا ۔ معاملہ’’بڑی عدالت‘‘ سے واپس ہائیکورٹ پہنچ گیا ۔ عزب مآب’’ چیف جسٹس ‘‘نے پابندی سے متعلقہ نئی درخواستوں پر دوران سماعت سوال اُٹھایا کہ غیر مسلم شراب خانے بند کرنا چاہتے ہیں تو ’’مسلمانوں کو کیا مسئلہ ہے ‘‘؟۔ یہی سوال مسلمانوں کے تمام مصائب ۔ مسائل کی جڑ ہے ۔ بنیاد ہے ۔ افغانستان سے لیکر شام تک سٹرکوں پر امدادی قافلوں کے پیچھے دوڑتے بوڑھے ۔ جوان ۔ بمباری کی زد میں آکر یتیم ہوتے شیر خوار بچے ۔ جو ان بچوں سے محروم ہوتے والدین ۔ سب کچھ مسلمانوں کے مسائل کیوجہ سے ہی تو رُونما ہو رہا ہے ۔ چکوال کی ایک معروف روحانی شخصیت پروفیسر’’غازی احمد‘‘نے ایک ’’یورپی نو مسلم‘‘ سے (غازی احمد بھی نو مسلم تھے) پوچھا کہ آپ کو اسلام کی کون سی چیز سب سے اچھی لگی ۔
’’قارئین‘‘ جواب ہمارے سوال سے بھی زیادہ دل شکن ۔ مگر آنکھیں کھول دینے کے قابل تھا کہ سوائے مسلمان کے مجھے اسلام کی ہر چیز اچھی معلوم ہوئی ۔ ’’اسلام‘‘ دنیا کا واحد آفاقی مذہب جس کو’’دین مبین‘‘ کہا جاتا ہے مگر اِس کے حامی ۔ متوالے دنیا کی ایسی جنس ہیں کہ پورے تالاب کو فسادی ۔ زہر آلود مچھلیوں سے بھر چُکنے کے باوجود لمحہ بھر کا دم لینے کوآمادہ نہیں ۔ کُل کائنات پر خیرو برکت ۔ رحمت امن کی شعاعیں بکھیرتا ہوا ’’دین ‘‘ ۔ اِس کے ماننے والے اپنی حرکات سے سوالات کے کہٹرے میں کھڑے ہیں مگر کوئی اَن کا کیس لڑنے کو دستیاب نہیں ۔ اقلیتی رہنما سٹرکوں پر احتجاج کناں ہیں ۔’’گیتا ۔ بائبل ‘‘کے حوالے دے رہے ہیں مگر دوسری طرف کے لوگ مان ہی نہیں رہے ۔ مانیں بھی کیوں ؟ کیسے اعتراف کرلیں؟ ’’اقلیت‘‘ کے نام پر ہی تو بیچی ۔ خریدی جاتی ہے ۔ اب زہریلی ہے یا درجہ اول ۔ کوئی غرض نہیں ۔ بس حرام ہے اور حرام رہے گی ۔ تو" ہائیکورٹ" نے صحیح پوچھا کہ" مسلمانوں کو کیا مسئلہ ہے "؟
لائسنس سے ریونیو ملنے کی بات کرنے والے پر وسب سے پہلے گرفت ہونی چاہیے ۔ حرام چیز کی آمدنی بھی حرام ہے ۔ سوچنا چاہیے ’’کہ مسلمانوں کو کیا مسئلہ ہے ‘‘ ۔ایک صرف’’مسلم اُمہ‘‘ ہی نہیں۔ مسائل پاکستانیوں کے بھی بڑے گھمبیر ہیں ۔ جو اتنے نظر انداز ہوئے کہ لا یخل قرار دینے پڑے ۔ ربع صدی سے زائد ’’35 لاکھ‘‘ افغانیوں کی میزبانی کرنے والا ملک اب آداب میزبانی کے ثمرات بُھگت رہا ہے ۔ پھر بھی وہ خوش نہیں ۔ تحائف کیا وصول ہوئے؟ ۔ کلاشنکوف کلچر ۔ منشیات کا عروج ۔معاشرت تباہ ۔ پراپرٹی مافیا ۔ سب کا حاصلِ وصول طالبان اچھے یا بُرے قطع نظر اِس کے ۔ پھر بھی سبق نہیں سیکھا ۔ اب تھوک کے حساب سے ’’چینی بھائی‘‘ درآمد ہو رہے ہیں ۔ ہر طرح کے نتائج جاننے کے لیے ۔زیادہ لمبا سفر نہیں کرنا پڑے گا۔ ہمیں تو سیاست نے خوار ۔ برباد کر کے رکھ دیا جو اِس پر سوچیں ۔
’’اللہ کی پکڑ سے بدعنوان دور نہیں‘‘
’’اللہ تعالی ، کریم ، رحیم ، غفور‘‘ رحمت برسائے صدر مملکت ’’ممنون حسین ‘‘ پر جو ہمہ وقت کرپٹ عناصر کے لتے لیتے دِکھائی دیتے ہیں ۔
کوئٹہ میں’’یوم قائد‘‘ پر منعقد ہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ببانگ دہل فرمایا کہ ’’بدعنوان‘‘ عناصر اللہ تعالی کی پکڑ سے دور نہیں ۔ کرپشن کے خلاف جدوجہد ایمان کا حصہ ہے ۔ کرپشن اور بدعنوانی کو جڑ سے اُکھاڑنے کے لیے نیب کو اپنی کارکردگی بہتر بنانی چاہیے ۔ کارکردگی اتنی بُری بھی نہیں ۔ ’’ڈرائی کلیننگ سے پلی بارگینینگ‘‘ تک معاملات سیدے سبھاوٗ بڑی سُبک خرامی سے منزلیں سر کر رہے ہیں ۔ ہماری تو یہی دُعا ہے کہ’’اللہ تعالی غفور الرحیم ‘‘ صدر مملکت کی دُعا قبول فرمالیں ۔ تمنا پوری کردیں۔ خواہش آرزو۔ کی تکمیل فر ما دیں کہ ’’اللہ کی پکڑ سے بدعنوان دور نہیں‘‘ ۔ 2017 کی بہت سارے دُعاوٗں کے ساتھ التجا ہے کہ یہ دُعا بھی قبول فر مالیں ۔ آمین۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024