ڈاکٹرعاصم کی گرفتاری نے سیاست میں بھونچال پیدا کردیا ہے۔ چھوٹی موٹی گرفتاریوں پرکوئی نوٹس نہیں لے رہا تھا البتہ ایم کیو ایم کے لوگوں کی گرفتاریوں پر الطاف حسین کا شورشرابہ ضرور سنائی دیتا تھا۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے اس کو سندھ پرحملہ قراردیا ہے خورشید شاہ تو اس حد تک چلے گئے کہ اگرآصف زرداری کیخلاف کچھ ہوا تو پھر اعلان جنگ ہوگا۔
’’کیا پدی کیا پدی کا شور شرابہ‘‘ کس کیخلاف جنگ؟ کون کرے گا جنگ ؟ اور جنگ کیلئے لوگ کہاں سے آئینگے؟کرپشن پاکستانی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔NAB کا ادارہ اس مقصد کیلئے بنایا گیا تھا جوکہ پٹواریوں اورکلرکوں تک محدود ہوکر رہ گیا۔ سینکڑوں میگا کرپشن کے مقدمات مزید تحقیق کئے بغیر بند پڑے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے نوٹس پرکارروائی شروع کی گئی لیکن چیئرمین نیب بیماری کا بہانہ بنا کر لندن چلے گئے۔ جنرل راحیل شریف کے عزم نے نیب کوآزادانہ طور پر ایکشن لینے پر مجبورکیا۔کرپشن کیخلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے عمران خان کوکہنا پڑا کہ پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کے درمیان مک مکا ہوا ہے اور چارٹر آف ڈیموکریسی میں دونوں پارٹیوںنے لوٹ مارکا سمجھوتہ کیا تھا۔ حالانکہ میثاق جمہوریت1973ء کے آئین کے بعد سیاسی پارٹیوں کے درمیان آئینی معاملات پر بہت بڑا اتفاق تھا۔ احتساب کے بارے میں چارٹرآف ڈیموکریسی کی شق نمبر13(D)میں کہا گیاکہ نیب کی جگہ پرایک ایساخود مختار احتساب کمیشن تشکیل دیا جائیگاجس کے سربراہ کا تقرر وزیراعظم اپوزیشن لیڈر اور50 فیصد حکومتی اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کی مشاورت سے ججوں کے تقررکی طرز پر شفاف اندازمیں عوام کے سامنے سماعت کے ذریعے کیا جائیگا۔ کنفرم ہونیوالا چیئرمین احتساب کمیشن سیاسی غیرجانبداری اور منصفانہ انداز میں معتدل فیصلے کریگا۔
2008-13ء کی اسمبلیوں نے نیب قوانین میں ترامیم کرکے اسکو میثاق جمہوریت کی روح کے مطابق ڈھال دیا اور حالیہ چیئرمین چوہدی قمرالزمان کی تقرری بھی اسی اتفاق رائے سے ہوئی۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ سیاستدانوں کیخلاف لوٹ مارکا حساب لینا بندکردیا گیا اور اسی کو مک مکا کہہ دیا گیا اور اب جب نیب کے ذریعے کارروائی شروع ہوئی ہے تو چیخ و پکار شروع ہوگئی ہے۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ پچھلے دس سالوں میں کرپشن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔2002ء سے لیکر2007ء تک، 2008ء سے لیکر2013ء تک اور 2013ء سے لیکرآج تک کی حکومتوں میں کرپشن کی دوکانیں سجی ہوئی ہیں۔ ہزاروں ایکڑ زمینیں کوڑیوں کے مول پر دے دی گئی ہیں۔ ترقیاتی فنڈز میں کرپشن توکوئی بری بات نہیں سمجھی جاتی۔2002ء سے لیکر2013ء تک کے وفاقی حکومت کے کسی محکمہ کو دیکھ لیں بڑی سے بڑی کرپشن نظرآئیگی۔ بدقسمتی ملاحظہ کریں کہ سیاسی انتقامات کے بہانے کسی سابق وزیراعظم اورسابق وفاقی وزیرکیخلاف کارروائی کوگناہ قراردے دیا گیا۔ 2013ء سے لیکرآج تکKPK وفاق اور پنجاب میں کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا البتہ سندھ، کشمیر اورگلگت بلتستان میں لوٹ ماراپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ اسی لئے سندھ کے خلاف کارروائی ہوتی ہوئی نظرآرہی ہے۔5000 ایکڑ زمین دینے پر سپریم کورٹ نے ازخودنوٹس لیا ہے یہ واقعہ بھی سندھ میں ہوا ہے کراچی جوکہ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس کو دونوں ہاتھوں سے لوٹاجارہا تھا اسی آڑ میں دہشتگردی ہو رہی تھی۔
ایم کیوایم نے بلیک میل کرنے کیلئے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا جس پرحکومت نے ایم کیوایم سے مذاکرات شروع کردئیے۔ صدشاباش ہے جنرل راحیل شریف کے جنہوں نے اسی دن کراچی میں بہت بڑا اعلان کردیا اور کراچی سے دہشتگردوں ، جرائم پیشہ عناصر اور مافیاز کے خاتمے کیلئے بلاامتیازآپریشن جاری رکھنے، شہرقائدکو پرامن بنانے کیلئے، دہشتگردی، جرائم پیشہ مافیاز، کرپشن اور تشددکے مابین شیطانی گٹھ جوڑ توڑ نے کا حکم دیا۔ڈاکٹرعاصم حسین کا دفاع کرنے والوں کو شرم نہیں آتی دراصل ان کو ڈاکٹرعاصم کی فکر نہیں بلکہ ڈر یہ ہے کہ کہیں بات ان کے باس تک نہ چلی جائے۔کون نہیں جانتاکہ ڈاکٹرعاصم نےCNG اور پٹرولیم کے دیگر معاملات میں اربوں روپے نہیں کمائے۔ ڈاکٹر عاصم نے تو میڈیکل تعلیم کو بھی نہیں بخشا۔ میڈیکل تعلیم کے ادارے کو تباہ و بربادکردیا گیا۔ میڈیکل سے وابستہ لوگوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کا ہر شہری ڈاکٹرعاصم کیخلاف کارروائی سے خوش ہے۔ لوگوں کواب فکر صرف یہ ہے کہ کہیں کرپشن کیخلاف کارروائی سیاست کی نظرنہ ہو جائے اور37 بااثرکرپٹ افرادکب گرفتارہوتے ہیں؟ جن میں سابق وزیراعظم ،سابق وفاقی وزیر، سابقہ چیئرمینFBR، سابق وفاقی سیکریٹری اور بہت سارے لوگ شامل ہیں جن پر ناجائز اثاثے بنانے Pak PWD میں746 افراد بھرتی کرنے، PTDC میں426 افراد بھرتی کرنے،سٹیل ملزمیں 51 کروڑکی کرپشن،EOBI سکینڈل، اوگرا سکینڈل اور دیگر شامل ہیں۔کرپشن کے ایک دل ہلادینے والے کیس کو دیکھ لیں تودل خون کے آنسو روتاہے۔ یہ کرپشن ایک سال میں 4 ہزار300 ارب روپے کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کرپشن بہت برسوں پر محیط ہو اور یہ بہت زیادہ رقم بن جائے۔ دولت کے پجاریوںنے یہ رقم گھوسٹ پنشنرز بن کر لوٹی ہے۔ چھ لاکھ جھوٹے پنشنرزنے کرپشن کے اس شرمناک کیس میں قومی خزانے کو4 ہزار300 ارب کا نقصان پہنچایا اس طرح ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے کرپشن کیس میں سابق وزیراعظم سمیت20 سے زائد افراد ملوث ہیں اور ان پر50 کروڑ روپے کی کرپشن کے 12مقدمات کے چالان عدالت میں پیش کئے جا چکے ہیں۔اسی طرح کے سینکڑوں مقدمات زیرالتواء ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نیب کو سپریم کورٹ اور مقتدراداروںنے مجبورکیاکہ میگا کرپشن میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے توکارروائی شروع ہوئی ہے۔ اس میں حکومت کاکوئی دخل نہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ نیب حکومت کا ماتحت ادارہ نہیں۔ مجھے توپیپلزپارٹی کی لیڈرشپ پر ترس آتا ہے جو حکومت سے اپنے تعلقات کوختم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ پی پی پی اپنا رہا سہا بھرم بھی ختم کر رہی ہے۔ لیڈرشپ کو یہ بھی اندازہ نہیں ہو رہا کہ کارروائی حکومت کے اشاروں پر ہو رہی ہے یا نیب اور رینجرز اپنے طور پرکر رہی ہے۔ابھی تو ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی پر ہاتھ پڑا ہے۔KPK اور پنجاب کے سیاستدانوں کی بھی باری آنے والی ہے۔کرپشن میں ملوث اپوزیشن راہنما ہو یا حکومتی لیڈرکسی کو معافی نہیں ملنے والی ۔سابقہ حکومتوں اورموجودہ حکومت کے خلاف سب سے بڑی چارج شیٹ یہ تیار ہو رہی ہے کہ سب نے کرپشن کی پردہ پوشی کی ہے لیکن اب کرپشن کاشیطانی گٹھ جوڑختم ہونے کا وقت آ گیا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38