بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ توڑنے کی دھمکی کے بعد کالا باغ ڈیم کی تعمیر پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئی ہے۔ یہی وہ اندیشہ تھا جس کی بنا پر تمام دانش مند اور دور اندیش محبان وطن گزشتہ پچیس‘ تیس برس سے چلا رہے ہیں۔ شور مچا رہے اور چیخ رہے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کو سیاسی ایشو نہ بناؤ۔ یہ ڈیم پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کا منصوبہ ہے۔ خدارا! اسے فوراً تعمیر کرو۔ لیکن آج تک کسی فوجی اور جمہوری حکومت میں اتنی جرات پیدا نہیں ہو سکی کہ وہ گنتی کی چند سیاسی تانگہ پارٹیوں کو نظرانداز کرکے کالا باغ ڈیم بنانے کا تہیہ کر لیں۔
اب اگر بھارت سندھ طاس معاہدہ ختم نہیں بھی کرتا تو کیا وہ عملاً معاہدہ ختم کئے بغیر ہمارا پانی روک نہیں سکتا؟ بھارت جیسے وعدہ خلاف اور مودی جیسے مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے حکمران سے کسی بھی گھٹیا ترین حرکت کی توقع کی جا سکتی ہے۔ جو حکمران پچاس برس پرانا معاہد توڑنے کی دھمکی دے سکتا ہے۔ سارک کانفرنس منسوخ کروا سکتا ہے اور پاکستان کے اندر دہشت گردانہ کارروائیوں کی پرورش کر سکتا ہے بلکہ بھارت میں گجرات سانحے کا موجب بن سکتا ہے‘ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بھارت ہم سے براہ راست جنگ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا لیکن چھپ کر پیٹھ پیچھے چھرا گھونپنے میں ہندو قوم اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ مجھے یاد ہے آبروئے صحافت محترم مجید نظامی نے آج سے تقریباً دس برس پہلے یہ پیشن گوئی کر دی تھی کہ: ’’آئندہ جنگ پانی پر ہو گی۔‘‘ اس وقت اکثر لوگ اس بات کو نہیں سمجھ پائے لیکن آج محترم مجید نظامی مرحوم و مغفور کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہو رہی ہے۔ ایسا نہیں کہ کوئی نجومی یا غوث اور قطب تھے۔ انکی سیاسی بصیرت ایسی تھی کہ وہ ماضی اور حال کے سیاسی منظرنامے کو دیکھ کر مستقبل کے بارے میں حتمی نتیجہ اخذ کر سکتے تھے۔ لیکن ہمارے سیاست دانوں کو ابھی تک یہ ادراک نہیں ہو سکا کہ کالا باغ ڈیم پاکستان کیلئے کس قدر اہم اور ناگزیر ہے۔ اگر (خدانخواستہ) بھارت واقعی ہمارا پانی روک لے تو پاکستان میں قحط سالی کی صورت بن جائیگی اور قحط سالی سے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق ہو جائیگا اور جس ملک کی اکانومی ختم ہو جائے اس ملک کی تباہی میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ابھی فوری طور پر بھارت نے بگلیہار ڈیم کے ذریعے پاکستان کا پانی عارضی طور پر بند کیا ہے تو ہمارا دریائے چناب خشک ہو گیا ہے اور دریائے چناب سے متصل تمام نہریں بھی بند کرنا پڑ گئی ہیں جسکے باعث ان نہروں سے کھیتوں کی آبیاری کا کام بند ہو گیا ہے اور فصلیں خشک ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ یہ ابھی آغاز ہے۔ یہ درست ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم نہیں کر سکتا اور چین نے بھی بھارت کو انتباہ کر دیا ہے کہ اگر یہ معاہدہ ختم کیا گیا تو چین کی طرف سے بھارت جانیوالے دریاؤں پر بند باندھ دئیے جائینگے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ… لیکن یہ اصل مسئلے کا پائیدار حل نہیں۔ یہ سب عارضی باتیں ہیں۔ بھارت کی خباثت اور کینہ پروری سے بچنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ فوری طور پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر شروع کی جائے اور اسے جلد سے جلد مکمل کیا جائے۔ جو سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما کالا باغ ڈیم کی مخالفت کریں ان پر بھارت نوازی اور غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جو شخص کالا باغ ڈیم کا مخالف ہے وہ پاکستان کا دشمن اور بھارت کا ایجنٹ ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اس سنجیدہ مسئلے کی طرف فوری توجہ دینا چاہئے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا حکم فوراً صادر فرمانا چاہئے۔ ورنہ نتائج کی ذمہ دار بھی مسلم لیگ (ن) ہی ہو گی۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی بنا پر مسلم لیگ (ن) 2018ء کے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کر سکتی ہے اور آئندہ پانچ برس مزید ملک کی خدمت کرنے کا موقع حاصل کر سکتی ہے۔ جہاں تک سارک کانفرنس کا تعلق ہے تو پاکستانی حکومت کو چاہئے کہ وہ نومبر میں ہونیوالی اس کانفرنس کو بھارت کی سازشوں کا شکار نہ ہونے دے بلکہ مضبوط خارجہ پالیسی کے تحت بھارت کے بغیر کانفرنس منعقد کروائے تاکہ بھارت آئندہ ایسی حرکت نہ کر سکے۔ بنگلہ دیش‘ بھوٹان اور افغانستان کی حکومتوں کو قائل کیا جائے اور کانفرنس میں شرکت پر مجبور کیا جائے۔ اگر بھارت کی مرضی کے مطابق یہ کانفرنس ملتوی یا منسوخ ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سارک ممالک بھارتی حکومت کے حکم کے پابند ہیں اور انکی اپنی کوئی مرضی اور فیصلہ نہیں۔ اس کانفرنس کا انعقاد بھارت کے منہ پر ایک طمانچہ ہو گا جوکہ بھارت کو پڑنا بہت ضروری ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی ہمت ہار کر بیٹھ گئی تو بھارت برتری کے احساس میں مبتلا ہو کر مزید کوئی خرابی کر سکتا ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو یہ ٹاسک سونپیں کہ بھارت کے بغیر بھی یہ کانفرنس منعقد کروانا ہماری عزت و آبرو کا مسئلہ ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024