پاکستان کو موجودہ حالات کے تناظر میں گیریژن سٹیٹ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔جہاں سوائے سیاست کے ہر طرف فوج ہی نظر آتی ہے ۔بلوچستان میں بھارتی ایجنٹوں اور علیحدگی پسندوں کے مقابل فوج ہے 2700کلو میٹر طویل سرحد پر افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے دہشتگردوں پر نظر بھی پاک فوج ہی کو رکھنی پڑتی ہے ۔طویل سرحد کا فائدہ اُٹھا کر دہشتگرد پاکستان میں داخل ہو کر دہشتگردی کی بھیانک وارداتیں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں وہ کبھی کامیاب بھی ہو جاتے ہیں، اکثر اوقات پاک فوج ان کا مقابلہ کرتی ہے اور انکی ناپاک سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے جانوں کے نذرانے بھی پیش کرنا پڑتے ہیں۔سیلاب کے دوران فوج کو امدادی کارروائیوں کیلئے طلب کیا گیا ہے ۔ آج کل کراچی اور اس کے ملحقہ علاقے سمندری طوفان نیلوفر کی زد میں ہیں جہاں بھی فوج موجود ہے ۔کراچی کی بدامنی پر قابو پانے کے لئے بھی فوج کو طلب کرنا پڑتا ہے آج بھی رینجر کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ بھارت نے لائن آف کنٹرول پر دہشت پھیلا رکھی ہے ۔اس کی بدمعاشی کی انتہا ہے کہ سیالکوٹ ورکنگ بائونڈری لائن کے شکر گڑھ سیکٹر پر جنیالہ کے رہائشی 30سالہ کسا ن توقیر خان کودو روز قبل بھارتی سیکورٹی فورسز نے بلااشتعال فائرنگ کرکے اس وقت شدید زخمی کردیا تھا جب وہ دو دیگر کسان ساتھیوں کے ہمراہ زیرولائن پر اپنے کھیتوں میں کام کررہا تھا۔ بھارتی فورسز کے اہلکار اسے زخمی حالت میں اپنے علاقہ میں لے گئے تھے جہاں وہ طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے شہید ہوگیا ۔ پاکستانی حکام کے احتجاج کے بعد بھارتی فورسز نے شہید ہونے والے پاکستانی کسان کا جسد خاکی جمعرات کی شام ساڑھے پانچ بجے پاکستان چناب رینجرز کے حوالے کیا ۔ہماری حکومت لاش واپس ملنے پر مطمئن ہوگئی ۔یہ بھارت کی طرف سے پاکستان کیخلاف یکطرفہ جارحیت کا واضح ثبوت ہے۔ پاک فوج بھارت کی جارحیت کا بھرپورمقابلہ کررہی ہے ۔ایران کا بارڈر ہمارے لئے ہمیشہ پُر امن رہا اب سرحد کے پار سے بھی مداخلت ہورہی ہے۔چند روز قبل ایرانی فورسز نے پاکستانی علاقے میں مارٹر گولے داغے جس کے جواب میں پاک فوج نے بھی کارروائی کی۔ یہ ایک ہفتے میں ایرانی فورسز کی جانب سے پاکستان کی سرحدی علاقے میں کارروائی کا دوسرا واقعہ ہے۔ایرانی سرحد سے متصل علاقے ماتشکیل میں ایرانی فورسز نے 6 مارٹر گولے داغے اگرچہ ان گولوں سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا مگر ایسے واقعات کا سدباب ضروری ہے۔اب پاک فوج کو جہاں بھی فعال ہونا پڑا ہے۔
پاک فوج کیلئے شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے خاتمے کیلئے جاری اپریشن ضرب عضب ایک کڑی آزمائش ہے۔جہاں سے دہشتگرد فرار ہوکر پورے ملک میں پھیل چکے ہیں۔پاک فوج دہشتگروں کا مکمل خاتمے کا عز م رکھتی ہے۔اس نے شمالی وزیرستان سے دہشتگردوں کے ٹھکانے تباہ کردیئے ہیں۔ اکثر علاقے کلیئر کرالئے گئے۔اب فوج اس اپریشن کا دائرہ بڑھا رہی ہے۔باڑہ ،وادی تیرہ میںاور خیبر ایجنسی میں اپریشن کے دوران دہشتگردوں کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔جہاں چند روز میں پچاس دہشتگرد مارے گئے اور ڈیڑھ سو کوگرفتار کیا گیا۔ضرب عضب اپریشن کا دائرہ رفتہ رفتہ پورے ملک تک پھیلایا جارہا ہے ۔ملک میں جہاں بھی دہشتگرد چھپے ہوئے ہیں یا وطن عزیز کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں میں مصروف فوج ان کا تعاقب کریگی۔ بھارت پاکستان کیخلاف برسرِ پیکار دہشتگردوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ آج اس کی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر شر انگیزی اپریشن ضرب عضب کو ناکام بنانے کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی ہے۔وہ پاک فوج کی توجہ اپریشن ضرب عضب سے ہٹانا چاہتا ہے تاکہ اسکے ایجنٹ اور پالتو دہشتگرد ہلاکتوں سے بچ سکیں۔ افغانستان کی طرف سے بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔پاک فوج دہشتگردی اور دہشتگردوں کے خاتمے کیلئے سرگرم ہے ۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری ادا کرتی نظر نہیں آرہی۔دہشتگردوں کا خاتمہ پوری قوم کے اتحاد کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ جب حکومت ہی سنجیدہ نہ ہو تو پھر اس اہم معاملے پر قوم کا کیا اتحا د ہو سکتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان ایجنسی میں کسی تفریق کے بغیر تمام دہشت گرد عناصر اور تنظیموں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے جس کے دوران 11 سو سے زائد دہشت گرد مارے گئے ہیں اس آپریشن کے بارے میں ہر سطح پر افغانستان سے رابطہ کیا گیا تھا صوبہ کنڑ اور نورستان میں موجود فضل اللہ اور انکے ساتھی پاکستان میں دہشت گردی کے حملے کرا رہے ہیں افغان انتظامیہ کی جانب سے کوئی تعاون نہیں کیا گیا۔افغانستان کی طرف سے جو کچھ ہورہا ہے اور جس طرح فضل اللہ کو پناہ دی گئی ہے یہ معاملہ سیاسی حکومت کو اٹھانا ہے۔جو نہ اٹھا کر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔پاک فوج نے شمالی وزیرستان کے بڑے علاقے کلیئر کرا لئے ہیں۔ مگر حکومت کی طرف سے نقل مکانی کرنے والے 20لاکھ سے زائد افراد کی بحالی کا سلسلہ شروع نہیں کیا گیا۔ کسی بھی علاقہ میں فوجی آپریشن مکمل ہونے پر اس کو کلیئر قرار دیا جاتا ہے تاہم اسکے چار مراحل ہوتے ہیں جن میں پہلا مرحلہ اس علاقہ کو کلیئر کرنا، دوسرا وہاں کا کنٹرول سنبھالنا، تیسرا وہاں کی تعمیرنو جبکہ چوتھا اور آخری مرحلہ وہاں کا انتظام سول انتظامیہ کے سپردکرنا ہوتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے ضلع سوات کی سات میںسے چار تحصیلوںکا انتظام سول انتظامیہ کو سپرد کیا جاچکا ہے۔ سوات کے بعد جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں بھی یہ عمل مرحلہ وار پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔یہ کام سیاسی حکومتوں کے کرنے کے تھے۔ سوات اپریشن کی تکمیل کو پانچ سال ہوگئے ابھی تک حکومت نے پوری طرح اس علاقے کا کنٹرول سول انتظامیہ کے حوالے نہیں کیا۔اس میں بلاشبہ گزشتہ حکومت کی کوتاہی کا عمل دخل ہے موجودہ حکومت نے بھی توڈیڑھ سال میں کچھ نہیں کیا۔شمالی وزیرستان کامعاملہ بھی اسی طرح لٹکایا گیا تو فوج طویل عرصہ اس دلدل میں پھنسی رہے گی۔ہمارا دشمن یہی چاہتا ہے۔حکمرانوں کو دشمن کے ایجنڈے پر کام نہیں کرنا پاکستان کے مفادات کو مدنظر رکھنا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38