برطانیہ میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ہونے والے ملین مارچ میں ہنگامہ آرائی بھارت کے خلاف نعروں کے ساتھ ساتھ گو بلاول گو کے نعرے لگنا شرکاء کی جانب سے اسٹیج پر ٹماٹر اور بوتلیں پھینکنے کا واقعہ افسوسناک ہی نہیں یہ کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوشش بھی تھی۔ قبل ازیں لندن میں پاکستانیوں نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے ملین مارچ کیا جس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ زرداری کے علاوہ برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین اور مختلف چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین اور دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے بھارتی فوج کے کشمیر سے اخراج اور کشمیریوں کے حقوق کے سلب کئے جانے کے خلاف احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ برطانوی حکومت اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔ بعد ازاں لارڈ نذیر احمد کی سربراہی میں وفد نے برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ 10۔ ڈائوننگ سٹریٹ میں کشمیریوں کے حوالے سے ایک یادداشت پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ کشمیری عوام اور ان کے حقوق کی آزادی کے لئے لندن میں اکھٹے ہوئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان میں اپنی تقریروں میں کشمیر کا موضوع خاص طور پر شامل کر کے اور لندن میں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے ملین مارچ کا انعقاد ممکن بنا کر کشمیر کے فراموش کردہ مسئلے میں دوبارہ جان ڈال دی ہے جو سیاسی مفادات سے قطع نظر اہم قومی خدمت ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر ملک میں کوئی اختلاف نہیں اور پاکستانیوں کو سو فیصد اس مسئلے کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے سے مختص کرنے کی حامی ہے جسے اس وقت کی بھارتی قیادت نے بھی تسلیم کر لیا تھا۔ اس مسئلے کے بارے میں تو کسی اختلاف رائے اور دو آراء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن بدقسمتی سے ملک کے اندر اس وقت جو سیاسی کشیدگی چل رہی ہے گویا ہمارا اندرونی معاملہ ہے مگر بعض عاقبت نااندیشہ عناصر اور جذباتی لوگ موقع بے موقع یہ دیکھے بغیر کہ اس کی اس حرکت کے مضمرات کیا ہوں گے ملک سے باہر بھی ایک ایسے موقع پر جہاں سٹیج پر جملہ سیاسی قوتوں کے نمائندوں کا ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اور شرکاء کا انسانی زنجیر بنا کر دنیا کو کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے اپنے اتحاد اور اتفاق کا پیغام دینا تھا۔ افسوسناک طور پر باہم اظہار نفرت کا ذریعہ بنا کر کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کو متحدہ اور بلند آواز سے اجاگر کرنے کے موقع کو متاثر کیا جس کا منفی تاثر پھیلنا فطری امر ہو گا۔ اگر آصفہ بھٹو زرداری کے اس ٹویٹ سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ بھارتی ایجنٹوں نے بلاول کو کشمیر سے متعلق بات کرنے سے روکنے کی کوشش کی لیکن بادی النظر میں خود ہمارے نادان دوستوں کے طرزعمل کی تشریح سے بہرحال یہی نکلتا ہے جنہوں نے سیاسی اظہار نفرت کے لئے اس موقع کا بلا سوچے سمجھے اظہار کر کے جگ ہنسائی کا سماں فراہم کیا۔ لندن کے اس واقعے کے ردعمل میں حیدر آباد میں تحریک انصاف کا دفتر نذر آتش کرنا بھی قابل مذمت واقعہ ہے۔ خصوصاً اس وقت جبکہ اس وقت پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے بیان پر ایم کیو ایم سراپا احتجاج ہے اور سندھ حکومت سے علیحدگی اختیار کر چکی ہے۔ کشیدگی کے اس عالم میں ذرا سی غفلت اور لاپرواہی کی گنجائش نہ تھی کہ جلتی پر تیل ڈالنے کا ایک اور واقعہ رونما ہوا خواہ وہ جس امر کے ردعمل سے بھی ہو وہ عمل قابل افسوس تھا۔ اس کاردعمل بھی اتنا ہی باعث افسوس ہے جس کی کسی طور گنجائش نہیں ہونی چاہئے تھی۔ اس وقت اندرون ملک جہاں سیاسی کشیدگی کا ماحول ہے وہاں پاکستان کی مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر دبائو کی کیفیت سے مستزاد ایران سے بھی بدقسمتی سے ہمارے سرحدی تعلقات کچھ زیادہ اچھے نہیں۔ مسئلہ کشمیر کے دوبارہ زندہ کئے جانے پر سیخ پا بھارت کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر مسلسل سرحدی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کر رہا ہے۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ سیاسی قوتیں خود کو سیاسی پلیٹ فارم تک ہی اختلاف رائے پر محدود رکھیں اور بین الاقوامی دنیا کے سامنے جگ ہنسائی کا باعث بننے والی حرکات سے نہ صرف باز رہیں بلکہ سرزد شدہ غلطی کے ازالے کے لئے باہم تعلقات پر بھی نظرثانی کر کے دنیا کو یہ پیغام دیں کہ باہمی اختلاف اپنی جگہ کشمیر کے حوالے سے پوری قوم متحد اور یک زبان ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ خراب ہی بھارت کی جانب سے فوج کشی کے نتیجے میں ہوا ہے۔ لہٰذا بھارتی فوج کو سب سے پہلے کشمیر سے نکالنا ہو گا۔ کشمیر میں بھارتی فوج کی موجودگی ہی کنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں کا سبب ہے اور اگر پاکستان کی جانب سے بھی کوئی کارروائی ہے تو وہ بھی کشمیر میں بھارتی فوج کی وجہ سے ہے۔ بھارتی حکمران اور سیاستدان جسے دراندازی کہتے ہیں اس کا ارتکاب تو بھارتی حکومت کشمیر میں اپنی فوج داخل کر کے بہت پہلے کر چکی۔ لہٰذا اصل اور پہلے درانداز کو نکالا جائے اور اگر کوئی اور قوت یا لوگ بیرون کشمیر کے وہاں موجود ہیں تو ان کو بھی نکالا جائے۔ لندن میں برطانوی وزیراعظم کی رہائش کے سامنے زبردست ملین مارچ کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس مارچ میں ایک ساتھ کھڑی تھیں کشمیر ہی وہ موضوع اور ایشو ہے جس پر پاکستان کی تمام جماعتیں بالاتفاق ایک موقف رکھتی ہیں اور اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس ایشو پر ساتھ ہوتی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی صورت حال بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ اس ملک میں بھی سیاسی جماعتیں اس رویے کا اظہار کریں۔ بھارت کی جارحیت کا جواب قومی اتحاد کے ذریعے ہی دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان حکومت کشمیر کے حوالے سے دو ٹوک پالیسی اختیار کرے، بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے اور جہاں جہاں ممکن ہو دنیا میں بھارت کے خلاف سیاسی اور سفارتی محاذ پر جارحانہ پیش قدمی کی جائے۔ بھارت نے لندن کا کشمیر مارچ رکوانے کی بھی کوشش کی اور اس مارچ کے دوران بدمزگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت سیاسی اور سفارتی کوششوں کو کہیں نہیں چلنے دینا چاہتا۔ وہ صرف طاقت کے ذریعے کشمیر پر قبضہ کئے بیٹھا ہے اور طاقت ہی کی زبان سمجھتا ہے۔ لندن کانفرنس نے اتحادی قوت کا پیغام بھارت کو دیا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ سرتاج عزیز کہہ رہے تھے کہ بھارت اور عالمی برادری کو جلد ایک سخت پیغام دیں گے۔ قوم اس سخت پیغام کی منتظر ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024