خبروں کے مطابق آنے والا بجٹ 2016-17ء میں عوام پر 26ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کی تجویز دی گئی ہے‘ مجموعی طور پر 150ارب روپے سے زائد کے ٹیکس لگانے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں، یکم دسمبر 2015ء کو پیش کیا جانے والا منی بجٹ بھی آئندہ بجٹ میں ضم ہوگا جبکہ وفاقی ترقیاتی بجٹ 800ارب روپے کا ہوگا۔ زیادہ رقم سڑکوں پر خرچ کی جائیگی۔ عوام کو ایک طرف پانامہ لیکس اور ملکی دولت لوٹنے کے مختلف اسکینڈلز میں اُلجھایا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب حکمران آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضہ کے عوض انکی سخت شرائط قبول کرتے ہوئے سیلز ٹیکس میں اضافے کی تجاویز پر عمل درآمد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پانامہ لیکس کے ریلے میں بہت سے طوفان اپنا کام دکھا گئے ہیں۔ ان میں سے ایک کی نشاندہی اسٹیٹ بنک نے کی ہے ۔ بینک نے مانیٹری پالیسی جاری کی ہے جس کے مطابق آئندہ مالی سال میں مہنگائی کے طوفان کا امکان ہے ۔ بینک کیمطابق حکومت اقتصادی ترقی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ زرعی ملک کے زرعی شعبے میں مایوس کن کارکردگی دکھائی گئی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ بینک نے مہنگائی کے جو اسباب بیان کیے ہیں وہ نئے ٹیکسز اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہے البتہ بینک نے توقع ظاہر کی ہے کہ اقتصادی راہداری پر کام تیزی سے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ جب پاکستانی حکومت آئی ایم ایف کی ہدایت پر کھربوں روپے کے نئے ٹیکس لگائے گی تو اس کا بوجھ عوام پر ہی پڑیگا اور پاکستان میں جس طرح ٹیکس لگائے جاتے ہیں اسکے نتیجے میں لوگوں کو ایک ہی ٹیکس دو مرتبہ دینا پڑتا ہے جس چیز پر ٹیکس لگایا جاتا ہے وہ مہنگی ہو جاتی ہے پھر اسکی خریداری پر بھی عوام کو ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ بظاہر ایک ٹیکس ہے لیکن ایک سے زیادہ مرتبہ دینا پڑتا ہے۔ اس طرح بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی آئی ایم ایف کی ہدایت پر بڑھ رہی ہیں۔ اضافی نرخوں پر اضافی جی ایس ٹی بھی عوام ہی دینگے ۔ اسکے نتیجے میں لازماً مہنگائی ہوگی۔ بجلی کے نرخ تو کم ہونا محض ایک خواب ہے لیکن قدرتی گیس کو بھی پاکستان میں مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ نئے ذخائر دریافت نہیں ہو رہے اور جو ہیں ان کو بھی بہتر نہیں بنایا جا رہا پھر گیس کی قلت بڑھے گی لیکن اس کا حل اسکی قیمت میں اضافہ تو نہیں ہے۔ حل تو نئے ذخائر کی تلاش ہی ہے۔ چینی کمپنی نے بوجوہ پنجاب میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر کام روک دیا ہے پھر اقتصادی راہداری کی کامیابی کیسے ممکن ہے۔ یہ پورا منصوبہ ایک دوسرے منصوبے سے مربوط ہے۔ درمیان سے کوئی چیز نکال دی جائے یا اس میں رخنہ ڈال دیا جائے تو پورا منصوبہ متاثر ہوتا ہے پھر اقتصادی راہداری منصوبہ توایسا منصوبہ ہے جس کے دشمن بھارت اور امریکا بھی ہیں۔ اس منصوبے کی کامیابی ان کیلئے رسوائیوں کا سامان لائے گی۔ لہٰذا اقتصادی راہداری کے حوالے سے بھی بہت امیدیں نہیں ہیں۔ کیونکہ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ اس منصوبے کے خلاف بیرونی قوتوں کے علاوہ اندرونی طور پر بھی کچھ قوتیں مصروف ہیں۔
قومی بجٹ سے پہلے اقتصادی ترقی یا تنزلی کے جو اشارے سامنے آرہے ہیں ، اس سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ اگلا مالی سال (2016-2017) بھی ملک کے بیس کروڑ عوام کیلئے خوشی کی کوئی نوید لاسکے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قبل از بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس ادا نہ کرنے والوں پر زمین تنگ کر دی جائیگی۔ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے والوں پر مزید محاصل لگانے کی تجاویز زیر غور ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ رواں مالی سال کیلئے محصولات کا ہدف حاصل کر لیا جائیگا ۔ حکومت نے ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کیلئے کئی اقدامات کر لئے ہیں۔ تاجر برادری کو ٹیکس نیٹ میںلانے کیلئے چھ ماہ تک مذاکرات کئے گئے، لیکن اب کوئی دباؤ قبول نہیں کیا جائیگا۔ 2018ء تک بجلی و پانی کی قلت ختم کرنے، سڑکوں اور شاہراہوں کا جال بچھاکر قومی معیشت کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچانے کے دعوے محض اس لئے کئے جا رہے ہیں کہ وہ عوام انتخابات کا سال ہوگا، جس کے بعد موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی سے مایوس ہو کر عوام کسی دوسری یا تیسری قوت کو برسراقتدار لانے کی کوشش کرینگے۔غور طلب بات یہ ہے کہ رمضان کی جون کے مہینہ میں آمد ہے اور اسی مہینہ میں سالانہ بجٹ بھی پیش کیا جاتا ہے اور اس خوشی میں عوام کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کیلئے حکومت کو خصوصی توجہ دینا چاہیئے۔ بجلی کا بحران، پانی کی قلت اور دیگر بحرانوں سے ملک کی ترقی کا گراف نیچے آرہا ہے۔ جن میں کہا جا رہا ہے کہ ملک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود توانائی بحران سے کیوں دو چار ہے۔ بجلی بحران حل کرنے کے نام پر ملکی خزانے سے اربوں روپے نکلوائے گئے لیکن حکمرانوں کی ملی بھگت اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے بجلی بحران ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومت مخالفین اور حکومتی نمائندوں کو صرف اپنی حکمرانی سے غرض ہے۔ سیاسی رہنماؤں کا وطیرہ بن چکا ہے کہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ ذاتی اور سیاسی اختلافات کا نتیجہ ہے کہ نہ تو عوام خوشحال ہیں اور نہ ہی ملک ترقی کر رہا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38