کہتے ہیں کہ پیرِ کامل نہیں ہوتا یقین کامل ہوتا ہے اور مصیبت کے دنوں میں پیر اور یقین کی شدت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ 12اکتوبر1999ء کو جب جنرل مشرف نے شریف برادران کے اقتدار کا خاتمہ کیا توان دنوں میاں شریف مرحوم صاحب کو اپنا ایک پیر نما دوست بہت شدت سے یاد آیا اور انہوں نے اس سے رابطہ کرکے اسے اپنے پاس بلوایا اور پھر جلاوطنی کے مراحل تک وہ ہاتھ میں تسبیح پکڑے شریف فیملی کیخلاف کیسز کی سماعت کے دوران میاں شریف کے ہمراہ نظر آتا۔ جی ہاں قارئین! یہ وہی شخص ہے جس کو آج پورا پاکستان ’’صدارتی پیر‘‘ کے نام سے جانتا ہے ۔ جواں عمری ہی سے پیر اعجاز حسین جو کہ موضع جگنہ گوجرانوالہ کا رہائشی تھا، اپنے کریمنل بیک گرائونڈ کی وجہ سے علاقے میں کوئی اچھی شہرت نہ رکھتا تھا مگر اپنی چرب زبانی سے وہ اکثر ممتاز گھرانوں کے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا۔ حکومتی زیر عتاب شریف خاندان جب ایک ڈیل کے تحت جدہ سدھارے تو نہ صرف میاں شریف مرحوم بلکہ پیر اعجاز حسین نے بھی اسے اپنی کرامات سے تشبیہ دینا شروع کی۔ ایک کیس کی پیشی کے دوران جب سابق صدر آصف علی زرداری نے جو ان دنوں خود بھی زیرِ عتاب تھے اس شخص کو میاں شریف مرحوم کے بہت قریب دیکھا تو انہیں ایک فطری تجسس ہوا اور انہوں نے پیراعجاز کے متعلق اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کیں۔
انہیں دنوں شریف فیملی تو جدہ چلی گئی جبکہ پیر اعجاز حسین کو ایک نیا مریدِ کامل مل گیا۔ قربتیں ایسی بڑھیں کہ آصف علی زرداری کی ہر پیشی پہ پیر اور مرید کا ملاپ ہونے لگا اور 2004ء میں جب آصف علی زرداری کی بی ایم ڈبلیو کیس میں ضمانت ہوئی تو وہ اس یقین سے جیل سے باہر آئے کہ اس رہائی کے پیچھے پیر اعجاز حسین کے ’’چِلّے اور تپسیا‘‘ ہے۔ ایسی ہی ایک ملاقات کے دوران پیر نے اپنے مرید کو بتایا کہ وہ اس کی پیشانی پر بادشاہت کی چمک دیکھ رہا ہے اور یہ کہ آصف علی زرداری ایک دن پاکستان کا سربراہ بننے والا ہے۔ پیر کی اس پیش گوئی کو آصف علی زرداری نے اپنے پَلے باندھ لیا اور اس کو اپنی منزل جان لیا کچھ ’’اِن سائیڈرز‘‘اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ پیر صاحب نے اپنے مرید کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت جیسے واقعہ سے پیشگی مطلع کر دیاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ محترمہ کی شہادت کے بعد پیر اعجاز حسین آصف زرداری کے سب سے قریب تھے اور جب تک انہوں نے صدارت کا منصب سنبھال نہیں لیا پیر صاحب موصوف مسلسل چِلے میں رہے اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ آصف علی زرداری کے صدارت سنبھالتے ہی پیر اعجاز حسین صدارتی محل میں شفٹ ہو گئے۔ ایک اندرونی اطلاع کے مطابق پیر صاحب کے انتظامات اور دعائوں کی بدولت سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان ایک خفیہ ڈیل ہوئی اور اسی دوران ’’میمو سکینڈل‘‘ کا قصہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔
قارئین! انہیں دنوں اس وقت کی وفاقی اور صوبائی کابینہ کے اراکین پیر صاحب کی خوشنودی کے لیے ان کے آگے پیچھے موجود رہتے تھے اور انہی دنوں پیر صاحب کے ایک بیٹے کو تحصیلدار کے عہدے پر پنجاب میں ملازمت بھی دلوائی گئی جو آج کل مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز ہے۔ جھورا جہاز کے مطابق سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دورانیہ اقتدار کو کم کرنے اور راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم کے عہدے پر فائز کروانے میں بھی پیر موصوف کی سفارش استعمال کی گئی۔ رازداران کہتے ہیں کہ ایک وہ بھی وقت آیا کہ پیر صاحب نے زرداری صاحب کو صدارتی رہائش گاہ کے بیڈ روم سے ایک لمبے عرصے کے لیے باہر نکلنے سے منع کر دیا اور اس دوران سابق صدر ایوانِ صدر میں محبوس ہو کر رہ گئے۔ گذشتہ روز بیس کروڑ عوام نے کافی دنوں کے بعد پیر صاحب کو پھر ٹی وی سکرین پر دیکھا جو سابق چیئرمین سینیٹ اور سابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کے ہمراہ ہاتھ میں تسبیح پکڑے عدالت سے باہر آتے دکھائی دیئے اور مریدین کے بقول پیر صاحب کے کشف و کراما ت کے ذریعے آصف علی زرداری کو انہی موجودہ حکمرانوں کے قائم کیے گئے اٹھارہ سال پرانے مقدمے سے بریت ملی۔
نوائے وقت کے قارئین کو یاد ہوگا کہ جس کا میں تذکرہ اپنے گذشتہ کئی کالمز میں کر چکا ہوں کہ نوازشریف کے سابقہ دور میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے سوئٹزرلینڈ میں خود ان کے اور آصف علی زرداری کے خلاف بنائے گئے سوئس کیسز ایس جی ایس اور کوٹیکنا کا مجھے انچارج بنا کر اس کی ذمہ داری سونپی تھی۔ جنہیں میں نے پیر نہ ہوتے ہوئے بھی ختم کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور یہی فاروق ایچ نائیک اور سابق وفاقی وزیر مخدوم شہاب الدین میرے ساتھ سوئس عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔ ان دوستوں کے علاوہ دیگر کئی دوستوں کی کاوشوں کے صلے میں ملنے والی کامیابی کو آج آصف علی زرداری پیراعجاز حسین کی کامیابی سے تشبیہ دے رہے ہیں اور پھر یہ بھی چشم فلک نے دیکھا کہ آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک اور سرکاری پراسیکیوٹر عدالت سے کیس کا فیصلہ سننے کے بعد پیر اعجاز حسین کے ہمراہ مقامی ریسٹورنٹ میں برگر پارٹی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔جب میں اس پیر کو دیکھتاہوں تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہوں،کیا پدی کیا پدی کا شوربا۔ پیرتو داتا علی ہجویری جیسے ہوتے۔ مجھے حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ سے متعلق کہا گیا یہ شعر یاد آ رہا ہے: …؎
گنج بخش فیض عالم مظہر نورِ خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
٭…٭…٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024