1970ء کے عشرے کے اوائل میں میری پہلی ملاقات جناب مجید نظامی سے اسلام آباد ایئر پورٹ پر اس وقت ہوئی جب وہ نامور خطیب ،ادیب و صحافی آغا شورش کا شمیری کے ہمراہ غالباً جنرل یحییٰ خان کی کی بریفنگ کے سلسلے میں اسلام آباد آئے تھے آغا شورش کا شمیری نے کچھ اس زوردار انداز میں میرا جناب مجید نظامی سے تعارف کرایا کہ پھر مجھے ان سے کبھی تعارف کرانے کی ضروت پیش نہ آئی ان کے ذہن میں میری شخصیت نقش ہو کر رہ گئی جہاں بھی ان سے ملاقات ہوتی وہ بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے رہی سہی کسر مولانا کوثر نیازی جو اس وقت ذالفقار علی بھٹوکی کابینہ میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات تھے نے نکال دی مولانا کوثر نیازی کی رہائش گاہ پر جناب مجید نظامی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی اچھے الفاظ میں تعارف کراتے ہوئے کہا کہ’’ جناب مجید نظامی یہ آپ کی سوچ وفکر پر یقین رکھنے والا نوجوان ہے‘آپ اس کی سرپرستی کریں اگرچہ میں نے1970ء میں صحافتی روزنامہ جسارت ملتان و کراچی سے اپنے صحافتی کیرئر کا آغاز کیا تھا لیکن مارچ1980سے روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی اسلام آباد سے وابستگی اختیار کی مجھے آغا شورش کاشمیری،الطاف حسین قریشی، نثار زبیری ، میر خلیل الرحمن ،شورش ملک ،ہدایت اختر کی ادارت میں کام کرنے کا موقع ملا ہے لیکن یہ جناب مجید نظامی ہی تھے جب ان کی زیرادارت کام شروع کیا تو پھر زندگی بھر ’’ادھر ادھر‘‘ دیکھنے کی ضرورت پیش نہ آئی 35سالہ صحافتی رفاقت میں انہوں نے کبھی میری تحریر کی ایک سطر نہیں کاٹی بلکہ اس کو زور دار بنانے کے لئے خود الفاظ کا اضافہ کر دیا بلا مبالغہ مجید نظامی 19اور20 صدی کے برصغیر پاک وہند کے سب سے بڑے صحافی تھے وہ نظریاتی صحافت کے امام تھے زندگی بھرکسی فوجی آمر سے ڈکٹیشن لی اور نہ ہی اپنی ادارتی پالیسی پر کسی کواثر انداز ہونے دیا وہ نظریہ پاکستان اور پاکستان کی ایٹمی قوت کے محافظ تھے پاکستان کے دشمنوں کے لئے شمشیر برہنہ اور اس کے دوستوں کے لئے محبت اور شفقت کا سایہ دار درخت تھے وہ پاکستان کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنے کے لئے کوشاں عناصر کے عزائم کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے کشمیریوں کی جد وجہد آزادی کے سب سے بڑے وکیل ہونے کے ناطے کشمیر کے دونوں اطراف قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ان کی حکومت اور اپوزیشن سے دوستی کا معیار اسلام ،پاکستان ،کشمیر اور ایٹمی پروگرام سے وابستگی تھا جو حکمران ان کے مقرر کردہ معیار پر پورا اترتا وہ ان کے اتنا ہی قریب ہوتا انہوں نے کشمیر کاز سے کمٹنٹ کی وجہ سے عمر بھر بھار ت کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا جنرل ضیاالحق نے انہیں اپنے ساتھ بھارت لے جانا چاہا تو انہوں انہیں یہ کہہ کر انہیں لاجواب کر دیا کہ’’ بھارت میں اس وقت ہی جائوں گا جب آپ ٹینک پر بیٹھ کر جائیں گے ‘‘ پاکستان کے ایک بڑے لیڈر جن سے ان کے قریبی تعلقات ہیں جب ان کے صاحبزادے نے ان سے پوچھا ’’انکل آپ بھارت کے بارے میں اس قدر سخت جذبات کیوں رکھتے ہیں تو انہوں نے اس سے کہا کہ اس سوال کا جواب تم مجھ سے پوچھنے کی بجائے اپنے دادا سے پوچھنا وہ اس کا صحیح جواب دے دیں گے جب بھارت نے مجھے ویزہ دینے سے انکار کیا تو انہوںنے میری حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ اس سے آپ کی پاکستانیت کو تقویت ہی ملے گی پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے منافقانہ طرز عمل اختیار کرنے والے ’’ سیاست دان ‘‘ جناب مجیدنظامی کے غیض وغضب بچ نہیں پاتے تھے اگرچہ نوائے وقت نے تحریک پاکستان سے ہی جنم لیا تھالیکن ’’معمار نوائے وقت ‘‘ کو حقیقی معنوں میں پاکستان کی آواز بنایا یہی وجہ ہے آج بھی بھارت کے پالیسی ساز ادارے پاکستان کی پالیسی کا تجزیہ کرنے کے لئے نوائے وقت کے اداریوں کو پیش نظر رکھتے ہیں مجھے اس بات کا ذاتی طور پر تجربہ ہے جتنی آزادی نوائے وقت میں لکھنے کی ہے شاید ہی کسی اور جگہ اتنی آزادی ہو مختلف ادوار میں پر کشش پیشکش ہوئیں بھی لیکن مجید نظامی کے مقابلے میں کوئی ایڈیٹر جچا ہی نہیں ادارہ نوائے وقت کے ایک سینئر رکن کی حیثیت سے ان سے میرا رابطہ تو رہتا ہی تھالیکن وہ جب کبھی اسلام آباد آتے تو جہاں ملکی سیاسی صورت حال کے بارے میں میں مجھ سے بات چیت کرتے وہاں سیاسی امور پر اپنے بے لاگ تبصروں سے گائیڈ لائن دیتے تھے ان کا روزمرہ کا معمول تھا کہ کسی اہم واقعہ پر ردعمل حاصل کرنے کے لئے خودریذیڈنٹ ایڈیٹر یا چیف رپورٹر سے فون پر بات کرتے یا ان کا پیغام موصول ہو جاتاوہ دورحاضر کے حقیقی معنوں میں آخری ایڈیٹر تھے جن کا اوڑھنا بچھونا ہی صحافت تھا مجھے اس بات کا اعزاز حاصل ہے جب میں نے وقت نیوز پر جنرل (ر)پرویز مشرف کے صدارت سے استعفاٰ دینے کی خبر بر یک کی تو انہوں نے نہ صرف مجھے فون کرکے شاباش دی بلکہ ایک ہزار روپے کا انعام دیا جو اب بھی میرے پاس محفوظ ہے میں نے حکمرانوں کی فرعونیت کے سامنے ڈٹ جاناجناب مجید نظامی سے ہی سیکھا ہے وہ نظریاتی صحافت کے آخری سالار تھے ان کی وفات سے نظریاتی صحافت یتیم ہو گئی ہے وہ برصغیر پاک و ہند کی صحافت میں ایک مضبوط اعصاب کے مالک صحافی تھے ان کے دل کے تین بائی پاس آپریشن ہوئے 86سال کی عمر تک خوش اسلوبی سے اپنے فرائض منصبی انجام دیتے رہے وہ27رمضان المبارک کو یوم آزادی منانے کا مطالبہ کرتے رہے اور پھر 27رمضان المبارک کو ہی اس عظیم پاکستانی نے اپنی جان اللہ کے سپرد کردی جناب مجید نظامی اول و آخرعظیم پاکستانی تھے پاکستان کو عظیم ترین ریاست بنانا ان کی زندگی کا مشن تھا شاید ان کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ اس دنیا سے ان کی روانگی کا وقت قریب آگیا ہے توانہوں نے اپنی صحافتی مصروفیات میں سے بیشتر وقت نئی نسل کو تحریک پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کرنے پر مختص کر دیا۔
کارکنان تحریک پاکستان ہی ان کا خاندان تھا ان کے ساتھ روزانہ نشست ان کا معمول بن چکا تھاجناب مجید نظامی کی کم گوئی مشہور ہے لیکن وہ دوسروں کی بات ہمیشہ توجہ سے سنتے جب وہ بات کرتے تو نپے تلے الفاظ استعمال کرتے جب وہ ایک بار کسی معاملہ پر اپنا موقف بنا لیتے تو کسی دبائو ،لالچ یا دھمکی میں آکر اس سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹتے، جنرل (ر)پرویز مشرف نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ’’قید تنہائی ‘‘کی صورت میں ’’ناکردہ گناہوں ‘‘ کی سزا دی تو یہ جناب مجید نظامی تھے جنہوں نے ان کی’’ قید تنہائی ‘‘ کے خلاف آواز بلند کی اور اس وقت روزانہ قوم کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیدکی یاد دلاتے رہے جب تک فوجی آمر نے ان کو رہا نہیں کر دیا اس ’’جرم ‘‘ میں نوائے وقت نے طویل عرصہ تک اشتہارات کی بندش کو برداشت کیا نوائے وقت نے جنرل(ر) مشرف کے دور میں جلا وطن نواز شریف کے بارے میں ایک ایک سطر شائع کرنے کی بھاری قیمت ادا کی لیکن اس بارے میں کبھی کوئی دبائو قبول نہیں کیامرحوم مجید نظامی کی جانشین محترمہ رمیزہ مجید نظامی نے ان کے مشن کو اسی جوش وخروش سے جاری رکھنے کے عزم کا اظہر کیا ہے جو ان کے عظیم باپ کی زندگی میں جاری تھا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024