جس عہد میں لُٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس وقت ملک میں چار لاکھ چھیاسی ہزار پنشنرز ہیں جو ای او بی آئی کے پاس رجسٹرڈ ہیں ان میں تین لاکھ ستائیس ہزار بوڑھے مرد ہیں اور ایک لاکھ اکیاون ہزار بیوگان اور یتیم بچے ہیں جبکہ ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد معذور مزدور غربت کی گہری دلدل میںدھنسے زندگی کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ انہیں صرف چھتیس سو ماہوار پنشن ملتی ہے جس میں انہیں پیٹ کی بھوک بھی مٹانا ہوتی ہے بجلی کا بل بھی دینا ہوتا ہے مکان کا کرایہ دوادارو علاج بھی کروانا ہوتا ہے اور دیگر ضروریات زندگی کا بوجھ برداشت کرنا ہوتا ہے۔ یہ لوگ ساری عمر مشقت کرتے رہے ساٹھ سال سے زائد عمر میں انکے جسم نہ صرف کمزور اور ضعیف بلکہ مختلف بیماریوں میں مبتلا یہ بوڑھے کسی کام کاج کے قابل بھی نہیں رہ جاتے اور صرف اولاد کے محتاج بن کے رہ جاتے ہیں اور اگر اولاد مجبور ہویا نافرمان نکل آئے تو یہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے رہتے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد بیوہ عورتیں تو بے چاری جس عذاب سے جی رہی ہیں اللہ پناہ دے۔ ہر بیوہ کو تین چار یتیم بچوں کی کفالت کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے نہ تو بیٹوں کی پڑھائی ہوسکتی ہے اور نہ بیٹیوں کے فرض سے سبکدوش ہوسکتی ہے میں بے شمار ایسی مجبور خواتین کو جانتا ہوں جنکے گھر کا چولہا اکثر ٹھنڈا رہتا ہے کیونکہ وہ بے چاری نہ تو محنت مزدوری کے قابل ہوتی ہیں اور نہ کوئی ذریعہ آمدن سوائے چھتیس سو پنشن کے۔
یہ بوڑھے یہ ضعیف یہ محتاج اپنے بڑھاپے کیلئے پائی پائی جوڑ کر ای او بی آئی کے پاس جمع کراوتے رہے لیکن حکمران اور حکام نے ان کا پس انداز شدہ اربوں کھربوں روپیہ گھپلوں، بدعنوانیوں اور ملی بھگت سے خرد برد کرلیا۔ یہ کسی ادارے کی طرف سے امانت میں بددیانتی کی بد ترین مثال ہے۔ اس وقت اگر ای او بی آئی کے فنڈز کا شمار کیا جائے تو ادارے کے پاس دو سو پچھتر ارب روپیہ موجود ہے جو کہ جون 2015ءمیں بڑھ کر دو سو پچانوے ارب تک جاسکتے ہیں جبکہ سال 2011ءمیں ادارے کے پاس ایک سو اٹھانوے ارب کے فنڈز تھے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر حکومتی اعلان کیمطابق ان پنشنرز کی پنشن میں اضافہ کیا جائے تو ادارے کو صرف چودہ ارب کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن پانچ لاکھ پنشنرز کو جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے میں کچھ آسانی ہوسکتی ہے۔
دنیا ویلفیئر سٹیٹ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ بہت سے ممالک میں بوڑھوں کے حقوق کا تعین کیا جاتا ہے اور انہیں زندگی کے اس حصے میں مناسب سہولتیں دی جاتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں بوڑھوں بیواﺅں اور یتیموں کے مال پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ ہمارے اداروں میں کرپشن نہایت منظم اور محفوظ طریقوں سے کی جاتی ہے۔ اس طرح کے ضابطے بنالئے جاتے ہیں جن سے بدعنوانی ہوتی تو ہے مگر بدعنوانی نظر نہیں آتی۔ ای او بی آئی مزدوروں کی رجسٹریشن برائے نام کرتا ہے اگر کسی ادارے میں ایک ہزار مزدور کام کرتا ہو تو رجسٹریشن ایک سو مزدوروں کی ہوتی ہے تاکہ سرمایہ دار کو فائدہ دیا جاسکے اور اس طرح اپنا حصہ وصول کیا جاتا ہے۔ یہ بدعنوانی ملک بھر میں ریجنل اور زونل سطح پر کی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ ملک بھر سے مزدوروں کی کل تعداد کا صرف بیس فیصد ای او بی آئی رجسٹرڈ کرسکی ہے مورخہ اٹھائیس اکتوبر2014ءکو اس بات کی نشاندہی قائد حزب اختلاف جناب خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں بھی کی۔ اگر رجسٹریشن پر توجہ دی جائے تو اور اس کو بڑھا کر اسی نوے فیصد کرلیا جائے تو کنٹریبیوشن پندرہ ارب سالانہ سے بڑھ کر ساٹھ ارب تک جاسکتا ہے اسی طرح حکومت کی جانب سے کم از کم اجرت بارہ ہزار مقرر ہے لیکن ادارہ صرف آٹھ ہزار پر کنٹریبیوشن لے رہاہے جس سے ادارے کو اربوں روپیہ کا نقصان پہنچایاجارہا ہے ملک کے اعلیٰ اداروں کو اس نااہلی اور بدعنوانی کا نوٹس لینا چاہیے۔ ہمارے ملک میں ملازمین کی ویلفیئر کا ادارہ فوجی فاﺅنڈیشنر سابقہ فوجی ملازمین کی فلاح و بہبود میں مصروف ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ادارے میں آج تک کرپشن کا کوئی سکینڈل نہیں ہوا فوجی فاﺅنڈیشن کے پاس اپنے اور شراکت داری میں اٹھارہ بڑے بڑے یونٹ ہیں جن میں صنعتی، تجارتی، بینک پاور پراجیکٹ گیس اور آئیل جیسے سیکٹر میں سرمایہ کاری کی گئی ہے جبکہ ہسپتال اور تعلیمی ادارے بھی چلائے جارہے ہیں۔ جس سے ادارے کے فنڈز اور اثاثہ جات میں کئی گنا اضافہ ہوا اور ہورہا ہے اس کا فائدہ ملکی معیشت کو ہی نہیں بلکہ ادارے کے ممبران اور لاکھوں متعلقہ خاندان بھی اٹھا رہے ہیں۔ اسکے برعکس ای او بی آئی نے پراپرٹی ڈیلر کی دکان کھول رکھی ہے کیونکہ اس میں مال بنانے کے آسان اور وسیع مواقع ہیں۔ پرائیمکو ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی ہے جہاں ای او بی آئی سرمایہ کاری کرتی ہے۔ سپریم کورٹ میں جو کرپشن کے مقدمات ہیں وہ سب پرائیمکو کے کرشمے ہیں۔ یہ ادارہ کینسر کی طرح ای او بی آئی کو چاٹ رہا ہے۔ ان بوڑھوں کے سرمایہ کو پراپرٹی کی خریدوفروخت کی بجائے انڈسٹریل یونٹ لگائے جاتے تو نہ صرف ملکی معیشت کو سہارا ملتا بلکہ روز گار اور پیداوار میں اضافہ ہوتا۔