کیا آپ نے مشاہدہ کیا ہے کہ کوئی ماں پاکستان میں ہو اور اس کا بیٹا ہزاروں میل دور کسی دوسرے ملک میں حادثے کا شکار ہو جائے تو ماں کے دل پر بوجھ پڑنا شروع ہو جاتا ہے، اس کو اندیشے ہونے لگتے ہیں۔ عام زبان میں ہم اسے چھٹی حس کہتے ہیں۔یہ چھٹی حس جسے آج تک لوگ ایک نفسیاتی احساس سے تعبیر کرتے ہیں میرے خیال میں ایک حقیقی مادی وجود رکھتی ہے۔
یہ حقیقت اب سائنس نے عیاں کردی ہے کہ ہمارے دماغ سے شعاعیں جسے ہم مائنڈ ویوز (ذہنی لہریں) کہتے ہیں خارج ہوتی رہتی ہیں اور ان لہروں سے دنیا کے لوگ اپنوں سے بندھے ہوتے ہیں۔ بیٹا جو ماں کے جسم کا ہی حصہ ہے گو کہ مادی طور پر ماں سے جڑا ہوا نہیں ہوتا لیکن جذباتی اور دماغی طور پر یقیناً مائنڈ ویو کے ذریعے جڑا ہوتا ہے گویا ان دونوں میں بھی مادی تعلق موجود ہوتا ہے۔
یہ رشتے صرف ماں بیٹا یا صرف دوسرے خونی رشتے داروں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ اگر انتہا درجے کی چاہت اور محبت ہو تو بھی آپس میں ایک مادی رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔
بعض اوقات یہ نہ نظر آنے والی قوت ایک ذہن سے نکل کر بہت سے لوگوں کو پابند بھی کر سکتی ہے۔ انہیں مادی طور پر کھینچ بھی سکتی ہے۔ کسی کام کے لئے منوا سکتی ہے۔ آپ دیکھئے کہ کسی قوم کا حقیقی لیڈر اگر واقعی قائداعظم کی طرح مضبوط ہو تو پوری قوم اس کے پیچھے کھینچی چلی آتی ہے۔ یہ کھینچا چلا آنا اصل میں واقعی ایک مادی عمل ہوتا ہے جو مائنڈ ویوز کے ذریعے عمل میں آتا ہے۔ گویا دماغ کی طاقت یا شعور کی قوت توانائی سے مادے میں تبدیل ہو جاتی ہے، باقاعدہ ہزاروں لاکھوں میل سفر کر سکتی ہے، نظر آ سکتی ہے، واقعات کے رخ بدل سکتی ہے اور حالات کو آناً فاناً تبدیل کر سکتی ہے۔
یہ طاقت انسان سے انسان تک ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے تک اور ایک تہذیب سے دوسری تہذیب تک سفر کر سکتی ہے۔ کبھی احسان بن کر، کبھی معلومات بن کر اور کبھی مادہ بن کر ، انسان جتنا سچا ہو، کھرا ہو، پر یقین ہو، جس کے دماغ میں جتنا سکوں ہو، حرص اور طمع کم سے کم ہو، اس کے دماغ سے ان لہروں کا اخراج اتنا ہی طاقتور ہوتا ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جو جب انتہا کو پہنچ جائے تو مافوق الفطرت واقعات رونما ہوتے ہیں۔
آپ نے بچپن میں یہ کھیل تو ضرور کھیلا ہو گا جس میں بچے ایک بوتل پر کاغذ رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر روح کو بلاتے ہیں۔ کبھی کبھی ”روح“ جیسے آ بھی جاتی ہے اور بوتل پر پڑے کاغذ کا رخ بھی تبدیل کر دیتی ہے۔
کینیڈا میں کچھ ماہر نفسیات نے سوچا کہ کیوں نہ وہ کسی روح کو بلائیں وہ ایک میز کے ارد گرد بیٹھ گئے اور آنکھیں بند کر کے اپنے اپنے تصور میں روح کو لانے لگے لیکن کئی دن ایسا کرنے کے باوجود وہ روح کہ نہ بلا سکے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ سب لوگ اپنے ذہنوں میں اس روح کے ایک جیسے حلیئے کو اپنے تصور میں لائیں۔ مثلاً یہ کہ وہ ایک مرد ہے اور اس کا نام فلپ ہے، اس کا قد چھ فٹ ہے۔ اس نے سوٹ پہنا ہوا ہے اور اس کے سر پر ایک ہیٹ ہے۔ اس کے بعد وہ تمام ماہر نفسیات فلپ کے ایک واضح تصور کے ساتھ دوبارہ اس میز کے گرد بیٹھ گئے اور روح کو بلانے لگے۔
پھر ایک عجیب سی بات ہوئی۔ فلپ سے متعلق جو بات ایک ماہر نفسیات کے ذہن میں آتی ایسا لگتا وہ بات سب تک پہنچ گئی ہو۔ گویا جس طرح سب کے ذہن مل کر ”ایک“ ہو گئے ہوں۔ حالانکہ وہ ایک دوسرے سے ہر گز ایک دوسرے سے بات نہیں کر رہے تھے۔ اس طرح آہستہ آہستہ ان کے دماغوں میں موجود مسٹر فلپ کا تصور پختہ ہوتا گیا۔ گویا سوچوں کی یہ طاقت خیال کے اس پیکر کو مادے میں بدل رہی ہو۔ ایک دن سب دوستوں نے سوچ میں ڈوبی ہوئی حالت میں فلپ کو بلایا اور کہا کہ وہ اپنی موجودگی کا ثبوت میز پر تھپکی دے کر دے پھر اچانک میز سے تھپکی کی آواز آئی۔ یہ آغاز تھا۔ اس کے بعد فلپ ان ماہرین کی ہر بات کا جواب دینے لگا اور ان کی باتیں ماننے لگا۔
1972ءمیں ان ماہرین نے بی بی سی ٹی وی کے ایک پروگرام میں مسٹر فلپ کو بلانے کا مظاہرہ کیا۔ اس پروگرام میں فلپ نے ایک میز ہوا میں معلق کر دیا۔ اس پروگرام کا ریکارڈ موجود ہے۔ پھر اسی دوران جب ماہرین کے اس گروہ کے ایک دو لوگ ادھر ادھر ہو گئے تو مسٹر فلپ کا وجود بھی ختم ہو گیا۔
ایسا ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔ دماغ کی اس طاقت کو آپ روحانیت کے پیرائے میں دیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ دماغ میں کامیابی یا ناکامی کا پیکر تراش لیں اور اسے مضبوط سے مضبوط بنانا شروع کر دیں‘ اس پر یقین کرنے لگیں اور محسوس کرنا شروع کر دیں تو یقین مانیں کہ منزلیں خود بخود قریب آنا شروع کر دیں گی۔ یہی تو ایک عام آدمی اور خاص آدمی میں فرق ہوتا ہے۔ چاہے معذوری سے لڑی جانے والی جنگ ہو یا مشکلات کا سامنا کرنے کی نوبت آجائے۔ یا کچھ کر گزرنے کا وقت آجائے اگر آپ اپنے اندر کی اس طاقت کی تراش کر سکیں تو آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ اس سے آپ دلوں کے حال بھی پڑھ سکیں گے اور آپ کے ہاتھوں ناممکن باتیں بھی ممکنات میں تبدیل ہو جائیں گی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے اندر کی اس طاقت کو پہچانیں، اس کی سمت درست کریں اور جہاں ضرورت ہو استعمال کریں۔ یقین اور اعتماد اس طاقت کا سرچشمہ ہے جب کہ شک اس طاقت کی ضد ہے۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب بارش نہیں ہوتی تو لوگ اجتماعی دعائیں کرتے ہیں اور پھر دعائیں قبول ہو جاتی ہیں۔ یہ طاقت بھی اصل مائنڈ ویوز ہوتی ہیں جو جب معاشرے کے اکثر لوگوں کے دماغوں سے نکلنے لگتی ہیں تو یکجا ہو کر مادی تبدیلیاں لانا شروع کر دیتی ہیں۔
یہ شعاعیں Photones کی شکل میں نکلتی ہی اور ان کا باقاعدہ مادی وجود ہوتا ہے اور ارد گرد کے ماحول میں ان کی بڑھتی ہوئی شدت اور موجودگی حالات کو سرکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ انسان روحانی طور پر جتنا مضبوط ہو گا اس کی طاقت بڑھتی چلی جائے گی اور اجتماعی طور پر جتنے زیادہ لوگ اپنی سوچوں میں ایک جیسے ہوں گے حالات اس سمت بدلنے لگیں گے۔ کسی قوم نے اگر ترقی کرنا ہے تو اس کے لئے یہ بے انتہا ضروری ہے کہ اس کے زیادہ سے زیادہ افراد مایوسی کی بجائے کامرانیوں کے متعلق سوچا کریں۔
ایرانی صدر کا دورہ، واشنگٹن کے لیے دو ٹوک پیغام؟
Apr 24, 2024