مکرمی! پرانا واقعہ ہے میں پہلے بھی بیان کر چ کا ہوں لیکن نہ جانے کیوں پھر سنانا چاہتا ہوں۔ بہت سال پہلے اندرون شہر کی ایک مسجد سے نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو باہر نمازیوں اور محلے داروں کے ہجوم میں ایک نوجوان گھیرا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ اس نوجوان نے مسجد سے جوتی چرائی ہے۔ محلے کے عزت دار اس سے پوچھ گچھ کر رہے تھے۔ چور نے اپنی مجبوریوں اور بے بسی کی داستان سنائی۔ اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ کیا سب کو رحم آ گیا۔ اور فیصلہ ہوا کہ اس کو محفوظ راستہ دے دیا جائے تاکہ حلوائی جس کی دکان سامنے یہ سب کچھ ہو رہا تھا وہ سن بھی رہا تھا اور دیکھ بھی رہا تھا جب چور جانے لگا ٹاکا حلوائی نے اپنی دکان سے چھلانگ لگائی اور جاتے ہوئے چور کو زبردست چانٹا لگا کر بولا ”اک تے رکھ“ یعنی ایک تو لگاﺅ۔ ڈکٹیٹر مشرف نے دو دفعہ آئین توڑا، بگٹی کا قتل، لال مسجد، بے شمار پاکستانیوں کو امریکہ کے ہاتھ فروخت کیا۔ اور پاکستا ن کو اس حد تک برباد کیا کہ اب اس کو ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا۔ اس نے اپنی مجبوری کی کوئی داستان بھی نہیں سنائی۔ کوئی وعدہ نہیں کیا پھر بھی وہ بڑے لوگ اس کو محفوظ راستہ دینے کو تیار ہیں؟ لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا کوئی ٹاکو حلوائی اس کو ایک زبردست چانٹا لگا کر کہے گا ” اک تے رکھ“۔ (ماجد علی شاہ 302اقبال ایونیو جوہر ٹاﺅن لاہور)
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024