قصور وار کو ن ؟
یہ آج سے دو دن پہلے کی بات ہے رات کا سنا ٹا ہرطرف چھا یا ہو ا تھا عمو ماً لائٹ جاتی نہیں تھی مگر آج چلی گئی تھی سردیو ں کی آمد آمد تھی اس لیے خا مو شی کا احساس ذرا زیا دہ ہو رہا تھا میں اپنے خیا لو ں میں گم یہ سوچ ہی رہی تھی کے اچانک غیر متو قع طور پر لائٹ آگئی ابھی کچھ دیر ہی گزری ہوگی کہ ایک درد نا ک چیخ اور بھاگنے کی دھم دھم کی آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا ۔ یا اللہ میر ی بچی ، یہ کیا ہو گیا کیسے ہوا، ابھی یہ میرے پاس ہی تو تھی ۔ معلوم ہو اکہ پڑوس میں ر ہنے والے کرائے دار کی 2 سال کی بچی پانی کی بڑی با لٹی میں ڈوب گئی ہے ۔ محلے کے چند معتبر حضرات بچی کو قریبی ہسپتال میں لے گئے اور کچھ ہی دیر میں 2 سالہ منی کا لا شہ لے کر آگئے عجب کہرام مچ گیا اہل محلہ کی باتیں اور ما ں کی آہیں سسکیا ں بین ۔ ما ں اور باپ کی حا لت اس وقت ایسی نہ تھی کہ کچھ بتا پاتے اور نہ ہی کسی میں اتنی ہمت کے اس قیامت کے بعد کوئی سوال کر سکے ، مگر ہا ں سب تھے اس ہی شش و پنچ میں کہ یہ ہوا کیسے ؟ سب اپنا اپنا حتمی فیصلہ سنارہے تھے اور ساتھ ساتھ اپنی رائے بھی دے رہے تھے مگر ایک کڑوا سچ تھا کہ 2 سال کی ایک معصوم بچی پانی محفو ظ کرنے کی غرض سے رکھی گئی بالٹی میں ڈوب کے ہلا ک ہو گئی تھی ۔اس کا قصور وار کون تھا ؟وہ بچی جو نا سمجھ تھی یا شرارتی تھی ، یا وہ ماں جس نے پانی کی ضرورت اور قلت کے پیش نظر پانی جمع کرکے رکھا ، یا کے الیکٹرک جو اعلا نیہ اور غیر اعلا نیہ دونو ں طرح کی لو ڈ شیڈنگ کے عذاب میں لو گوں کو مبتلا رکھتی ہے ، یا وہ غریب با پ جو جنر یٹر خریدنے کی حیثیت نہیں رکھتا تھا ، یا انسا ن کی سہو لت کے لیے ایجا د ہونے والا مو بائل فون ، یا عوام کے مسائل حل کرنے کے دعوئے دار سیا سی لیڈر جنہیں ایک دوسرے پر الزام تراشی سے فرصت ملے تو وہ ان مسائل کی طرف دیکھیں جو ان کی تو جہ کے طلب گار ہیں ۔ 2 سال کی منی اپنے گھر میں گھر والو ں کی مو جو دگی میں دنیا سے ر خصت ہو گئی اس کے پیچھے ہزار باتیں ما ں کاش میں با لٹی پانی سے بھر کے نہ رکھتی ، باپ کا ش میرے پاس گھر کے خرچ سے اتنا بچ پاتا کہ میں اس مو م بتی کے بجائے گھر کو یو پی ایس یا
جنر یٹر سے روشن کر دیتا ۔ ان گنت سوال و قیاس آرائیاں مگر حقیقت ایک کہ معصوم ننھی کلی مر جھا گئی اور پانی میں ڈوب کر مر گئی ہے ان جھو ٹے دعوئے او ر وعدے کرنے والے حکمرانو ں اور سیاستدانو ں کوبھی چلو بھر پانی میں ڈوب مر نا چاہیے جو عوام کو زندگی کی بنیا دی سہو لیات تک نہیں دے پائے خو د کو عوامی لیڈر او عوام کا غم خوار کہنے ولالے ایک بار سو چیں کہ پانی بجلی گھر جیسی بنیا دی ضروریا ت تک سے محروم عوام کو ان کے دھر نوں اور بڑے بڑے منصوبو ں کی نہیں بلکہ بنیا دی ضروریا ت زندگی کی ضرورت ہے ۔ (عنبر جبیں ۔ کراچی )