مکرمی! سال بھر قبل مجھے اپنے ایک ذہنی معذور لڑکے کیلئے مالی امداد وغیرہ کے سلسلے میں اسلام آباد جانا پڑا تھا۔ لیٹ ہونے کی وجہ سے میں نے ایک ٹیکسی والے سے بات کی تو اس نے کہا کہ بابا جی آپ اسلام آباد کے جس علاقہ میں جانا چاہتے ہیں اس علاقے میں ٹیکسی کا داخلہ بند ہے۔ آپ کو تقریباً2کلو میٹر پیدل جانا ہو گا۔ کہ اس مخصوص علاقہ میں داخلے سے 1کلو میٹر قبل پولیس نے چیک پوسٹیں بنائی ہوئی ہیں ان پوسٹوں سے آگے ٹیکسی ویگن کا جانا کافی عرصے سے بند ہے۔ تو میں نے بھی مذکورہ چیک پوسٹ تک جانے کا کرایہ طے کیا اور گاڑی چل پڑی ایک مخصوص جگہ پر گاڑی روک دی گئی جہاں مجھے اتار کر گاڑی واپس ہو گئی 2کلو میٹر پیدل چلنے کے بعد منزل مقصود پر پہنچا تو پتہ چلا کہ ادارہ کی سر براہ طے شدہ وقت کے بغیر کسی سے ملاقات نہیں کرتی، میں نے نچلے عملہ سے مسئلہ بیان کیا لیکن ملاقات نہ ہو سکی اور ناکام واپس آنا پڑا۔ سوچتا ہوں اسلام آباد والوں نے ضرورتمندوں کوا سلام آباد آنے سے روکنے کیلئے ہی شاید اسلام آباد کی تمام شاہراہوں کو صراط مستقیم دیا ہے۔ میں تو4/5گھنٹے کے بعد آرام سے گھر لوٹ آیا لیکن سندھ اور بلوچستان والے سائلین اور حاجتمندوں پر اس طرز عمل سے کیا گزرتی ہو گی۔ بہتر یہ ہے کہ عوام الناس کو اسلام آباد آنے سے روکنے کا متقلا حکم دیدیا جائے۔تا کہ کوئی اپنی ضرورت اور مسئلہ لے کر یہاں نہ آئے۔ ہمارے حکمرانوں کو عوام کو سہولیات اور ریلیف فراہم کرنے کا خیال کب آئے گا؟ (فتح محمد موسیٰ خیل ضلع میانوالی )
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024