مکرمی میں آپ کے اخبار کے توسط سے ایک اہم مسئلہ کو عوام الناس ور حکومتی ایوانوں تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ قرآن کریم کی بے حرمتی ہمارے معاشرے میں عام ہو چکی ہے۔ اردو اخبارات و رسائل ، اشتہارات ، میگزین جو کروڑوں کی تعداد میں چھپتے ہیں۔ ان میں قرآنی آیات، مذہبی کالموں ، احادیث ، سے بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ ان اخبارات کو پڑھنے کے بعد یہ کہاں پڑے ہوتے ہیں۔ یا تو راستوں پر، یا کوڑے کے ڈھیروں پر، دکانداروں کی دکانوں جن میں کوئی بھی چیز لپیٹ کر دیدی جاتی ہے۔ ہوٹلوں اور تندوروں پر یہی اردو اخبارات و رسائل استعمال ہوتے ہیں۔ انسانوں اور جانوروں کے پائوں تلے روندے جاتے ہیں۔ کسی کو توفیق نہیں ہوتی کہ ان کو اٹھا کر کسی اوپر والی جگہ پر رکھ دے یا کسی کو یہ توفیق نہیں کہ اخبارات کو راستے یا کوڑے میں نہ پھینکے۔ ردی میں بیچنے کی بجائے مساجد کے باہر اکثر بکس لگے ہوتے ہیں وہاں جمع کروا دیں تا کہ قرآنی آیات کی بے حرمتی نہ ہو۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ آخر ایک مسلم معاشرہ میں زینب جیسے واقعات کی لعنت کیوں تیزی سے پھیل رہی ہے؟ میںسمجھتا ہوں کہ اس جرم میں ایک عام آدمی سے لیکر اقتدار کے مسند پر براجمان ہر شخص برابر کا شریک ہے۔ذرا سوچیے کہ جس ملک میں پرویزی دور حکومت میں ’’روشن خیالی‘‘ کا سبق کئی سال تک زور شور سے پڑھایا گیا ہو اور بعد کے ادوار میں اس پر عمل ہوتا رہاہو،اس ملک میں جنسی سرکشی عام کیوں نہ ہوگی۔ یورپ کے اکثر ممالک میں حرامی بچوں کی شرح ساٹھ فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔’’کنواری مائوں ‘‘میں ہوشربا اضافہ ہے۔طلاق کی کثرت ہے۔میاں بیوی میں اعتماد کی فضا سوگوار ہے۔جذبہ ایثار و قربانی کا نام و نشان تک مٹ چکاہے۔گھرکسی بھی معاشرہ کی خشت اول ہے،اگر یہی اساس کمزور ہوجائے تو صحت مند معاشرہ کیسے تعمیر ہو سکتا ہے۔یہ سب’’ ناموس کی حفاظت ‘‘میں کوتاہی اور زنا جیسے فعل قبیح کا نتیجہ ہے۔(ڈاکٹر محمد ادریس ۔ صدر ڈینٹسٹ ایسوسی ایشن پنجاب)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024