عہد ظلمت میں روشنی کا یقیں
ہو گیا خاک زندگی کا یقیں
اب کہاں ہے بھرم وہ رشتوں کا
اب کہاں ہے وہ دوستی کا یقیں
آدمی آج کل نہیں کرتا
کسی صورت بھی آدمی کا یقیں
جو بھی ملتا ہے مسکرا کے ہمیں
کرنے لگتے ہیں ہم اُسی کا یقیں
چھین لیتا ہے بربط فرقت
میرے ہونٹوں سے نغمگی کا یقیں
صبحؔ اُمید ڈھل نہ جائے کہیں
پھیل جائے نہ تیرگی کا یقیں