افواہوں کے معاشرے پر اثرات
مکرمی! آج کے دور میںجہاں معاشرے میں اور بہت سی برائیاںہیں افواہیں پھیلانا بھی ایک بہت بری بیماری جو معاشرے کو گھن کی طرح کھا دہی ہیں اسلامی نقطہ نظر سے معاشرے میں افواہیں پھیلانا بہت بڑا جرم ہے اس سے مختلف طبتعات میں نفرت اور حقارت پیدا ہوتی ہے ۔ جو کہ معاشرے میں لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے اسلامی نقظہ نظر سے ہم سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم افواہیں نہ پھیلائیں من گھڑت اور جھوٹی باتوں سے اجتناب کریں یہ دنیاوی لحاظ سے ہی جرم نہیں بلکہ اسکا ٓآخرت میں سخت حساب ہو گا۔ عہد نبوی میں افوائیں پھیلانے کا کام منافقین کیا کرتے تھے منافقین نہ ملت اسلامیہ کے خیر خواہ تھے اور نہ مملکت اسلامی کے افواہیں خواہ حکومت کے خلاف ہو یا کسی ادارے یا کسی فرد کے ہر حالت میں قابل مذمت ہیں افواہیں اور غلط قسم کی باتیں پھیلانے سے شرمندگی اور پریشانی اٹھانی پڑتی ہے ۔ قرآن کریم نے اسی کا سدِ باب کرنے کے لئے مسلمانو ں کو حکم دیا ہے کہ کبھی بھی اس قسم کا غیر مصدقہ خبر یا افواہیں عام لو گوں میں نہ پھیلائی جائے اس قسم کی افواہوں کے بارے میں ارباب حل اور عقد کو اگاہ کر نا چاہئے تاکہ وہ اس قسم کی افواہوںکا جائزہ لیں اور اس روک تھام کریں قرآن میں افواہیں پھیلانے کو شیطانی عمل کہا گیا ہے اس طرح زمہ دار شہریوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ جب وہ اس قسم کی افوہیں سنیں تو انہیں حکومت تک پہنچائیں تاکہ وہ اس کی روک تھام کے لئے اقدامات کر سکیں اس ضمن میںرسول اللہؐ ایک بڑا سنہری اصول بیان فرمادیا ہے جو ملک اسلامیہ کیلئے ایک دستوری ہدایت کی حیثیت رکھتا ہے:’’گناہ کیلئے یہ بات کافی ہے کہ انسان سنی سنائے بات بیان کرنے لگے‘‘ قرآن کریم اصلاح معاشرہ کیلئے جہاں ضروری ہدایت دیتا ہے وہاں ایسی باتوں کی روک تھام کا انتظام بھی کرتا ہے جومعاشرے کے پر سکون ماحول کو بگاڑ تا ہے سورہ الاسراء کی مندرجہ ذیل آیت مبارکہ نہ صرف بے بنیاد کے پیچھے نہ لگنے کا حکم دے دیں ہے بلکہ زمہ داری کا شعور بھی پیدا کر رہی ہے۔ترجمہ:’’جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو یقیناً کان ، آنکھ، اور دل سب سے باز پرس ہو گی‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں پو ری طرح کا مل یقین نہ ہو اس کے پیچھے نہ لگ جانا چاہئے بد گمانیاں اور افواہیں ایک ہی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں اسلام جس قسم کا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے اس کی بنیاد ہی باہمی تعاون پر ہے لہذا اس قسم کی بات نہیں کہنی چاہئے جس سے کسی فرد یا جماعت کی شہرت کو نقصان پہنچتا ہو یا لوگوںکی دل آزاری ہو تی ہو سورۃ الجرات کی مندرجہ ذیل آیت مبارکہ بھی افواہ سازی سے اجتناب کی تاکید کرتی ہے۔حکومت کا بھی فرض ہے کہ افواہوں کی روک تھام کرے کاص طور پر نشرو اشاعت کے ادارے جو حکومت کے تحت کام کر رہے ہیںمثال کے طور پر ریڈیو ، ٹیلی ویژن وغیرہ اس ضمن میںیہ کام کرنا ہو گا کہ یہ ادارے عوام میں اپنا اعتما د پیدا کریں تاکہ لوگ ان اداروں کی مہیا کردہ اطلاعات پر بھروسہ کر سکیں۔ یہ ادارے لوگوںکی کردار سازی کا کام کریں لوگوںکی کردار کشی کا کام نہ کریں اس طرح افواہ سازی کی حوصلہ شکنی ہوگی اسی طرح ملکی صحافت پر بھی بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غیر متعلقہ اور بے بنیاد خبریں شائع نہ کرے کیونکہ غیرمتعلقہ اور بے بنیاد خبریں معاشرے اور حکومت دونوں کو نقصان پہنچاتے ہیں افراد کے کردار پر ان کا اثر پڑتا ہے خبریں چھان بین کر کے اور پور ے اطمینان کے ساتھ شائع کرنی چاہیں ۔ ہماری اخبارات اگر اوپر بیان کردہ قرآن حکیم کے احکامات اور حدیث نبوی کی روشنی میں ایک ضابطہ اخلاق طے کر لیں۔ یقیناً اس کے معاشرے پر مثبت ا ثرات مرتب ہوں گے۔ صحت مند صحافت بھی افواہ سازی کی روک تھام میں موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔(رشید احمد ، گلستان کالونی واہ کینٹ )