تعلیمی نظام
انسان کی پیدائش سے ہی سیکھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے جو مرنے تک جاری رہتا ہے اور بعض اوقات ہم بہت کچھ سیکھنے کی چاہ میںاپنی اصلی اقتدار اور روایات کو بھول جاتے ہیں ۔جبکہ آج کے دورہ میں تعلیمی مقابلہ بہت بڑھ گیا ہے ۔ تعلیمی مقابلہ بڑھنے کی وجہ سے معیار میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے ۔ آج بچے یونیورسٹوں میں داخلہ لینے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ جہاں پروہ زندگی کی رنگینیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پڑھا ئی پر خاص توجہ نہیںدے پاتے وہیں پر اساتذہ بھی طلباءکو متعلقہ مضامین کے مختصر سے نوٹس تھما دیتے ہیں جنکو وہ صر ف امتحان کی حد تک پڑھتے ہیں اور جاکر پییر دے آتے ہیں ۔ اس سب کی وجہ سے طلباءکی ذہنی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں ۔ مقابلے کی اس دوڑ میں تعلیمی معیار بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ کتابوں میں لکھی تحریریں کہ ماں کی گود سے لیکر قبر تک علم حاصل کرو صرف کتابوں اور سننے تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ یہاں ہر کوئی ڈگریاںحاصل کرنے کے تعاقب میں لگا ہوا ہے جبکہ علم حاصل کرنے سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ۔ آج ڈگریاں صرف اس لیے حاصل کی جاتی ہیں تاکہ آئندہ آنے والے دنوں میں اسے ذریعہ معاش بنایا جا سکے علم اور شعور کی کمی کی وجہ سے ہی ہمارا ملک پستی کی طر ف جارہاہے ۔ دوسری قومیں ہماری تعلیمات کو استعمال میں لاتے ہوئے ترقی کی جانب بڑھ رہی ہیں جبکہ ہم اپنی تعلیمات سے غافل ہیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مغربی طاقتیں ہماری تعلیمات پر قبضہ کرنے کیساتھ ساتھ ہمارے ذہنوں کو بھی اپنا غلام بنا لیں ۔ آج ہم بچوں کو معیاری تعلیم دے کر انکی شخصیتوں کو نکھار سکتے ہیں اور ترقی کی جانب گامزن ہوسکتے ہیں ۔ (ارم ستار)