اسٹیل مل ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی، ٹرین مارچ اور بھوک ہڑتالی کیمپ
اسٹیل مل وطن عزیز کا سب سے بڑا فولادی صنعت کا ادارہ ہے ، جس کی بندش کو دو سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے۔ مقام افسوس یہ ہے کہ اسٹیل مل کو اس نا گفتہ بہ صورتحال کا سامنا، گزشتہ و موجودہ جمہوری دور میں کرنا پڑا۔ اسٹیل مل ایک وسیع و عریض رقبے پر محیط صنعتی ادارہ ہے۔ 8126 ایکڑ پر مشتمل رہائشی علاقہ ہے جس کی آبادی دو لاکھ افراد کے قریب ہے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پیداواری عمل جولائی 2015 ء ے مکمل طور پر بند ہے۔ پانچ ماہ سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا ہے ، ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں اور طبی و سفری سہولیات انتہائی محدود کردی گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے ملازمین شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ جو ملازمین ، ملازمت مکمل کر چکے ہیں یا انتقال کر گئے ہیں ان کے واجبات کی ادائیگی کئی سال گزرنے کے باجود نہیں کی جا سکی ہے۔حاضر سروس یا ریٹائرڈملازمین ہوں یا انتقال کر جانے والے ملازمین کے ورثائ، سب کے چہروں پر مایوسی و پژمردگی نمایاں ہے۔ جب سے اسٹیل مل کے حالات خراب ہوئے ہیں، اسی وقت سے سٹیل مل سے منسلک ہر گھرانے کے معاشی حالات دگردگوںہیں۔ والدین نے اولا د کے مستقبل کے حوالے سے جو سنہرے خواب دیکھے تھے وہ سب ادھورے اور آنکھوں میں ہی رہ گئے ہیںجہاں ملازمین کے بچے اہلیت اور اعلی تعلیم کا ذوق و شوق ہونے کے باوجود اعلی تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ وہیں ان گنت بیٹیاں مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی ہیں۔ طبی سہولیات کے خاتمے کے بعد ملازمین ، تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور کئی سال سے تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے مناسب علاج و معالجہ کرانے سے بھی قاصر ہیں۔ اسکول فیس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے والدین بچوں کو اسکول نہ بھیجنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری حضرات بھی پریشان ہیں کہ کب تک ادھار پر کاروبار کو جاری رکھ سکیں گے2010 ء سے الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا اسٹیل مل کے مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے لیکن حکمرانوں اور ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک رینگ کے نہیں دے رہی مقامی ممبر قومی و صوبائی اسمبلی بھی چپ کا روزہ رکھے بیٹھے ہیں ۔ ایک عرصے سے اسٹیل مل کی نجکاری کے دعوے کیے جارہے ہیں لیکن ہنوز دلی دور است کبھی دعویٰ کیاجاتا ہے کہ اسٹیل مل کی زمین پیچ کر اور نجکاری کے بعد ملازمین کو واجبات کی ادائیگی ممکن بنائی جائے گی لیکن یہ سارے دعوے صرف زبانوں اور کاغذوں تک ہی محدود ہیں۔ وفاقی حکومت جب بھی اسٹیل مل کی زمین اونے پونے داموں بیچنے کی بات کرتی ہے تو سندھ حکومت بھی جو اسٹیل مل کے معاملے پر محو نیند ہے، فورا بیدار ہوکر زمین بیچنے کے عمل کی مخالفت میں بیان داغ کر اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوجاتی ہے۔ ا سٹیل مل کی زبوں حالی اور بندش کا المیہ جو اب ایک انسانی المیے کا روپ دھار چکا ہے ، ہر محب وطن ، ذی عقل و شعور ملازم کے لیے لمحہ فکریہ بن چکا ہے۔ اس نا گفتہ بہ صورتحال میں اسٹیل مل ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے حکومت کی اور ارباب اختیار کو معاملے کی سنگینی کا احساس دلانے کے لیے ٹرین مارچ کیا اور ڈی چوک میں مظاہرے کے ساتھ نیشنل پریس کلب کے سامنے تین دن علامتی بھوک ہڑتال۔ ان دنوں اسٹیل مل جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رہنما ، ممبران اسمبلی اور با اثر سیاست دانوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں اور حتمی لائحہ عمل طے کرنے میںمصروف ہیں ۔ ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی ان کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ حکومت اور ارباب اختیار اسٹیل مل کی بندش کے معاملے کو سنجیدگی سے لیںاور جلد از جلد اسٹیل مل کی بحالی، ملازمین کے حقوق ، ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی یکمشت ادائیگی ، تنخواہوں میںاضافے اور طبی سہولیات کی مکمل فراہمی پر فوری توجہ دیں تاکہ وطن عزیز کا سب سے بڑا فولادی صنعت کاا دارہ ملک کی ترقی میں ایک بار پھر اپنابھرپور کردار ادا کرسکے۔ ( سیّد محمد اشتیاق، کراچی )