حکویہ سب کچھ کیوں؟
مکرمی! میں نے ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر وزیراعظم نوازشریف تک تمام ادوار کا نہ صرف اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا بلکہ عملی طورپر سیاست اور صحافت کے میدان میں بھرپور حصہ لیکر حالات و واقعات کو بہت قریب سے محسوس بھی کیا ہے۔ زندگی کے اس طویل سفر میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اوراق میری آنکھوں کے سامنے آج بھی زندہ حقیقت کی طرح گھومتے ہیں۔ ان سارے ادوار میں رونما ہونے والے سیاسی اتار چڑھائو اور واقعات کے نتیجے میں نقصان ہمیشہ پاکستان اور پاکستان کی عوام کو ہوا ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوںکہ جب بھی سیاسی طورپر استحکام اور معاشی طورپر ملک بہتری کی جانب قدم بڑھانے لگتا ہے کوئی نہ کوئی انجانی اور ان دیکھی قوت سارے نظام کو تہہ و بالا کر دیتی ہے اورکوئی نیا تجربہ نئے روئیے میں اہل پاکستان کے سروں پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ ایوب خان کے مارشل لاء سے لیکر مشرف کی ایمرجنسی تک پاکستان کے عوام کے ساتھ ڈرامہ رچایا گیا مگر نہ تو کسی ڈکٹیٹر نے اور نہ ہی کسی سیاسی لیڈر نے (بھٹو کے بعد) پاکستان اور عوام کے لئے کوئی ٹھوس‘ سنجیدہ اور عملی اقدامات کئے‘ نتیجہ یہ کہ ملک میں ایک سیاسی چپقلش اور معاشی افراتفری پھیلی‘ قومی خزانے اور وسائل کو بے دریغ لوٹا گیا اور ملک پر اربوں ڈالر کے قرضے مسلط کر دئیے گئے مگر آج بھی ہمارے رہنمائوں اور فیصلہ سازوں نے آنکھیں نہیں کھولیں اور اقتدار کی جنگ کے شعلے وقفے وقفے سے کہیں نہ کہیں بھڑکاتے رہتے ہیں۔ اللہ اللہ کر کے گزشتہ صدیوں سے بے پناہ مصائب جھیلنے اور قربانیاں دینے کے بعد جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر چلنے تو لگی ہے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مصالحانہ پالیسی کا کافی حصہ ہے مگر جمہوریت اور جمہوری اداروں پر مختلف اطراف سے تابڑ توڑ حملے جاری ہیں اور گزشتہ چار سالوں سے بعض ہونے والے سیاسی واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ اندرونی یا بیرونی چند ایسے عوامل اب بھی اس کوشش میں ہیںکہ کسی طرح جمہوریت جڑ نہ پکڑ سکے‘ اداروں کا ٹکرائو جاری رہے تاکہ پاکستان سیاسی استحکام کی جانب قدم نہ بڑھا سکے۔ (انجم کھوکھر، راولپنڈی)