مزدور بچے معاشرے کا المیہ
بچے جو کسی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں جب حالات سے مجبور ہوکر ہنسنے کھیلنے کے دنوں میں کام کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں تو یقینا اس معاشرے کے لئے ایک المیہ وجود پارہا ہوتا ہے یہ المیہ ہرگزرتے دن کے ساتھ زخم کی صورت اختیار کرتا ہے اور پھر ناسور بن کر سماج کا چہرہ داغدار اور بدصورت کردیتا ہے پاکستان میں بھی مزدور بچوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے وطن عزیز جو کہ ایک ترقی پذیر ملک ہے وسائل کی کمی، مہنگائی اور غربت کی بڑھتی ہوئی شرح نے والدین کو اس قدر مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے معصوم بچوں سے بھی محنت کرانے سے گریز نہیں کرتے 13کروڑ عوام جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اپنے بچوں کو ہوٹلوں، کارخانوں، ورکشاپوں، گھروں حتیٰ کہ سگنل پر کھڑا کرادیتے ہیں اور کچھ انہیں بھیک مانگنے پر لگوادیتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بچوں کی مشقت کے خاتمے کے لئے تعلیم ایک مو¿ثر ہتھیار ثابت ہوسکتی ہے مگر مہنگائی نے والدین کو اس قدر مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے جس عمر میں ہاتھ میں قلم اور کتابیں ہونی چاہئیں اس عمر میں ہاتھ میں کٹورا یا گاڑی صاف کرنے کے لئے کپڑا ہوتا ہے، حکومت ہر سال چائلڈلیبر ختم کرنے کے دعوے تو کرتی ہے لیکن اس پر اقدامات ہوتے ہی نہیں، میری حکام بالا سے گزارش ہے کہ ان کم عمر بچوں کی مشقت پر پابندی لگائی جائے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔( محمد معراج علی ۔ کراچی )