مکرمی! عید میلادالنبیؐ کے موضع پر ان اشعار پر مشتمل ’’نعت‘‘ گلیوں محلوں بازاروں چوک چوراہوں پر بڑی شد و مد کے ساتھ پڑھی جاتی ہے ۔ ادب و آداب تو اپنی جگہ لیکن ایک بات جو ’’سوہنےؐ‘‘ نے خوبصورت انداز میں فرمائی ہے کہ سب سے بری جگہ مومن کے لئے ’’بازار‘‘ اور سب سے اچھی جگہ مومن کے لئے ’’مسجد‘‘ ہے لیکن اس موقع پر ’’بازار‘‘ مرد و زن اور بچوں سے اٹے پڑے ہوتے ہیں۔ بازاروں گلیوں محلوں میں انسانوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے ہوتے ہیں اور مسجدیں ماتم کناں ہوتی ہیں۔ ’’مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے‘‘ اور مساجد میں یہ دن منانے والوں سے ایک یا دو صفیں بمشکل پوری ہوتی ہیں۔ حالانکہ نبی مہرباںؐ کو جو ’’معراج‘‘ میں اللہ رب العزت نے تحفہ دیا وہ نماز تھی ’’جسے محبت کرنے والوں نے یکسر بھلا دیا اور جب اسی 12 ربیع الاول کو جناب رسالت مآبؐ کا وصال ہوا اور شدید بیماری کی حالت میں جب بھی آنکھ کھلتی یا ہوش آتا تو فوراً نماز کا پوچھتے کہ نماز ہو گئی ہے اور فرمایا کہ مسلمان اور کافر کے درمیان فرق کرنے والی صرف اور صرف نماز ہے اور ہم ولادت باسعادتؐ پر گلیاں بازار محلے تو سجاتے ہیں مگر مسجدوں کو آباد نہیں کرتے۔ یہ نبی مہرباںؐ سے کیسی محبت ہے کہ جس کام سے انہوں نے منع فرمایا ہے وہ ہم بڑے ذوق شوق سے کرتے ہیں اور جس کا ہم کو انہوں نے حکم دیا ہے وہ ہم نے نہیں کرنا۔ آج ہم محبت کا اظہار گلیاں محلے بازار اور راستے بند کر کے لوگوں کو مشکلات میں ڈال کر کرتے ہیں۔ گلیاں محلے سجاتے ہیں اور گزرگاہیں بند کر دیتے ہیں۔ حالانکہ نبی مہرباںؐ نے فرمایا کہ راستے سے پتھر ہٹا دو‘ کانٹا ہٹا دو‘ کیلے کا چھلکا ہٹا دو۔ اس پر بھی نیکیاں ملتی ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ راستے بند کر کے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ کیسی محبت ہے؟(راؤ محمد محفوظ آسی ٹاؤن شپ لاہور)
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024