الجھی تنہائی کی تڑپت بھی ہے آنکھیں بھرتی شام ہوتی ہے تو وحشت نہیں دیکھا کرتی
زرد موسم کے حوالے مری حسرت کے پرت جو بکھیرے وہ محبت نہیں دیکھا کرتی
مرا کاجل جو گھٹائوں کو رُلا دیتا ہے اور پھر میں یہ سخاوت نہیں دیکھا کرتی
جو قدر دان ہی نہ تھے جنہیں اپنا سمجھی کرگئے جتنی عنایت نہیں دیکھا کرتی
آج پھر برگِ تمنا نے مرا خون کیا آج پھر اپنی یہ حالت نہیں دیکھا کرتی
ہر قدم دشتِ نگہ غالب قہر ہی توڑے ساعتوں میں ہے ملامت نہیں دیکھا کرتی
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024