مفادعامہ کی درخواست واپس نہیں لی جا سکتی: چیف جسٹس ہائیکورٹ
لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ اور محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے درمیان تلخ صورت حال پیداہوگئی۔ نابینا افراد کو سرکاری ملازمتیں دینے کیلئے دائر درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزارنے موقف اختیار کیا کہ وہ مفاد عامہ کی یہ درخواست واپس لینا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مفاد عامہ کی درخواست واپس نہیں لی جا سکتی۔ مفاد عامہ کی درخواستیں واپس کرنا یا نہ کرنا عدالت کا اختیار ہے جس پر درخواست گزار نے کہا کہ ہائیکورٹ سے مفاد عامہ کی درخواستوں کو پذیرائی ملنا بند ہو گئی ہے جو غریبوں کیلئے درخواست دائر کرتا ہے، ہائیکورٹ اسکو جرمانہ کر کے حوصلہ شکنی کرتی ہے اور پھر اس وکیل کا تماشہ بنایا جاتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپکو یہ غصہ ہے کہ پولیس یونیفارم کیس میں آپکو جرمانہ کیا گیا جس پر درخواست گزار نے کہا کہ عدالت نے میری عدم موجودگی میں جونیئر وکیل کو جرمانہ کیا، انصاف کے تقاضے تب پورے ہوتے جب میری موجودگی میں وجوہات دیکر جرمانہ کیا جاتا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس یونیفارم کے تحریری حکم میں جرمانے کی وجوہات دی ہیں، انکو پڑھ لیجئے گا تاکہ آپکا غصہ کم ہو سکے جس پر درخواست گذار نے کہا کہ عدالتی فیصلے سے اختلاف کرنا وکلاء اور عوام کا آئینی حق ہے تاہم وہ آئندہ نابینا افراد کے مفاد عامہ کے کیس میں پیش نہیں ہونگے۔ فاضل عدالت نے محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ کو نابینا افراد کے کیس سے الگ کرتے ہوئے کیس کی سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی۔