پنجاب اسمبلی:اپوزیشن کا دوسرے روز بھی ہنگامہ، گو نواز ،رو عمران،چور ،چرسی کے نعرے
لاہور (خصوصی رپورٹر+ خصوصی نامہ نگار+ سپیشل رپورٹر+ کامرس رپورٹر+ سپورٹس رپورٹر) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پانامہ کے معاملہ پر مسلسل دوسرے روز حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے ایکدوسرے کی قیادت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ اجلاس ایک گھنٹہ 35منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے نقطہ اعتراض پر سپیکر سے شکوہ کیا پیر کو اپوزیشن کو وزیراعظم نواز شریف کے مستعفی ہونے کے مطالبے پر مبنی قرارداد پیش نہیں کرنے دی گئی جبکہ حکومت نے رولز کو معطل کرا کے وزیر اعظم کے حق میں قرارداد منظور کرا لی جس پر سپیکر نے کہا کہ یہ غلط ہے مجھے اپوزیشن نے رولز معطل کرنے کے حوالے سے درخواست نہیں دی، قرارداد پیش کرنے کےلئے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں اور میں نے انہیں دیکھنا ہے۔ میاں محمود الرشید نے کہا کہ ہمارے ساتھ غلط ہوا ہے ہمیں یہ کہا گیا کہ قرارداد کےلئے دو ہفتے کا پراسس ہوتا ہے۔ نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کل بھی کر رہے تھے آج بھی کرتے ہیں اورکرتے رہیں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب اسمبلی کا بھی یہی مطالبہ ہے۔ اس کے ساتھ اپوزیشن ارکان نے نشستوں سے کھڑے ہو کر نعرے بازی شروع کر دی اور اپوزیشن نے ایجنڈا کی کاپیاں پھاڑکر ہوا میں اچھالتے ہوئے گو نواز گو، گلی گلی میں شور ہے نواز شریف چور ہے، مک گیا تیرا شو نواز گو نواز گو نواز، دو میں فیل تین میں کمپارٹ پپو پاس پپو پاس جبکہ حکومتی ارکان نے چرسی چرسی، رو عمران رو، چرسی بابا چور ہے، بھاگ بھاگ چرسی بھاگ، بھنگی چرسی مردہ باد، بھاگ چرسی شیر آیا، وزیر اعظم نواز شریف، میاں دے نعرے وجن گے، قدم بڑھا¶ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے لگاتے رہے جس کے باعث ایوان مچھلی منڈی میں تبدیل ہو گیا۔ سپیکر دونوں طرف کے ارکان کو چپ کرانے کی کوشش کرتے رہے لیکن حکومتی اور اپوزیشن نے ان کی ایک نہ سنی۔ نعرے بازی کے دوران ہی اپوزیشن رکن آصف محمود نے کورم کی نشاندہی کر دی اور مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے پر سپیکر نے پانچ منٹ کےلئے گھنٹیاں بجانے کا حکم دیا۔ اپوزیشن ارکان کے باہر جانے کے دوران حکومتی ارکان نے بھاگ بھاگ گئے کے نعرے لگائے جس پر اپوزیشن ارکان فوری طور پر ایوان میں واپس آ گئے اور ایک طرف سے چرسی چرسی اور دوسری طرف سے چور ہے چور ہے کے نعرے لگتے رہے۔ اس دوران سپیکر نے بتایا کہ تعداد پوری ہے اور کارروائی کا دوبارہ آغاز کر دیا گیا۔ سپیکر نے شور شرابے میں تحاریک التوائے کار پڑھنے کی ہدایت کر دی اور شور کے باعث کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ حکومتی رکن اسمبلی گلناز شہزادی جیسے ہی نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے ترمیمی مسودہ قانون پیش کرنے لگیں تو اسی دوران اپوزیشن رکن اسمبلی عارف عباسی نے کورم کی نشاندہی کر دی۔ ایوان کی کارروائی معطل ہونے کے دوران حکومتی رکن اسمبلی عبدالرزاق ڈھلوں نے کہا کہ میں پرائیویٹ قرارداد پیش کرتا ہوں کہ بنی گالہ میں کوکین کی سپلائی اور اس کا کاروبار بند کیا جائے جس پر ایوان میں قہقہے بلند ہوئے۔ پانچ منٹ بعد گنتی کرائی گئی تو تعداد پوری ہونے پر کارروائی کا دوبارہ آغاز کیا گیا۔ حکومتی رکن اسمبلی گلناز شہزادی نے مسودہ قانون (ترمیم ) (ترویج و انضباط) نجی تعلیمی ادارہ جات پنجاب2017 پیش کیا جسے وزیر قانون رانا ثناءاللہ خان نے کمیٹی کے سپرد کرنے کی سفارش کی سپیکر نے کمیٹی کے سپرد کر کے دو ماہ میں رپورٹ طلب کر لی۔ اس بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کی طرف سے طلبہ و طالبات کے والدین کو مخصوص دکان، یا مہیا کنندہ سے نصاب کتب، یونیفارم یا دیگر میٹریل خریدنے کے لئے تقاضا کیا جاتا ہے تو وہ ایسے جرمانے کا مستوجب ہوگا جو زیادہ سے زیادہ تیس لاکھ اور کم از کم دس لاکھ روپے ہوگا۔ قبل ازیںپارلیمانی سیکرٹری نازیہ راحیل نے محکمہ ریو نیو جبکہ پارلیمانی سیکرٹری چوہدری زاہد اکرم نے محکمہ کالونیز سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے۔ سپیکر نے محکموں کی طرف سے چار سوالات کے جوابات نہ آنے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹریز سے کہا کہ جواب لے کر ایوان کوآگاہ کریں اور ذمہ داران کے خلاف انکوائری کرکے انہیں سزا دیں اور مجھے بھی اس بارے بتائیں۔ اپوزیشن رکن خرم جہانگیر وٹو نے مسعودہ قانون پیش کیا جس میں کم عمری کی شادی کے قانون 1929 میں ترمیم پیش کی۔ وزیر قانون نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ہی قانون موجود ہے تاہم اس سے بعض مذہبی مسائل پیدا ہونگے۔ جس پر حکومت کی مخالفت کی وجہ سے بل کو نامنظور کر دیا گیا۔ فائزہ مشتاق کی طرف سے تمباکو کی غیر قانونی فروخت کی سزا بڑھانے کا بل پیش کیا گیا جس کو منظور کر لیا گیا۔ 3 قراردادیں منظور کر لیں گئیں جبکہ ایک قرارداد نامنظور کر دی گئی جبکہ دو قراردادیں ملتوی کر دی گئیں۔ جو قراردادیں منظور کی گئیں ان میں چوہدری اشرف کی قرارداد جس میں کہا گیا ہے کہ تمام ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتالوں کو فضلہ تلف کرنے کے لئے آلات فراہم کئے جائیں۔ ارم حسن باجوہ کو نے قرارد اد پیش کی جس میں کہا گیا کہ فرائض منصبی سرانجام دیتے ہوئے جان قربان کرنے والے پولیس ملازمین کو جاں بحق کی بجائے شہید لکھا جائے۔ شہزاد منشی کی قرارداد میں کہا گیا کہ پبلک ٹرانسپورٹ خصوصی طور پر رکشہ کے پیچھے لگائے گئے غیر اخلاقی اور غیر مہذب اشتہارات کے خلاف فی الفور کارروائی کی جائے۔