وزیر اعلیٰ پنجاب کو کوئی اختیار نہیں وہ مرضی کے افسر کو سرکاری رہائش الاٹ کریں: لاہور ہائیکورٹ
لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب بھر میں سرکاری رہائش گاہوں کی الاٹمنٹ کا ریکارڈ طلب کر تے ہوئے ریمارکس دیئے ہیںکہ کیا وزیراعلیٰ کو پالیسی معاملات میں مداخلت کرنے کا اختیار ہے۔ جسٹس خالد محمود خان نے ہائیکورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار اکمل حسین کی درخواست پر سماعت شروع کی تو درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ پالیسی کے تحت ہائیکورٹ، سول سیکرٹریٹ اور پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ کے ملازمین کو سرکاری رہائش گاہیں الاٹ کی جا سکتی ہیں مگر حکومت ہائیکورٹ کے ملازمین کو امتیازی سلوک کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں سرکاری گھر الاٹ نہیں کر رہی جبکہ دیگر محکموں کو سرکاری گھر الاٹ کئے جا رہے ہیں، عدالت ہائیکورٹ ملازمین کو بھی پالیسی کے تحت گھر الاٹ کرنے کا حکم دے، سول سیکرٹریٹ کے اسٹیٹ افسر طارق افسر نے عدالت کو بتایا کہ گھروں کی الاٹمنٹ کی درخواستوں پر سمری بنا کر وزیر اعلیٰ کو بھجوائی جاتی ہے جو قوانین میں نرمی کر کے دیگر محکموں کے ملازمین کو گھروں کی الاٹمنٹ کی منظور ی دیتے ہیں، فاضل عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیا وزیر اعلیٰ کو پالیسی معاملات میں مداخلت کرنے اور قوانین نرم کرنے کا اختیار ہے، عدالت نے دلائل سننے کے بعد پنجاب بھر میں سرکاری رہائشگاہوں کا ریکارڈ طلب کر تے ہوئے سماعت 6 اگست تک ملتوی کر دی۔ آئی این پی کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکو مت سے 2009ء سے اب تک سرکاری گھروں کی الاٹمنٹ کا ریکارڈ طلب کرلیا جبکہ جسٹس خالد محمود نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وزیراعلی پنجاب کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ مرضی کے افسر کو سرکاری رہائش الاٹ کریں۔بی بی سی کے مطابق پولیس نے ہائیکورٹ کو آگاہ کیا کہ لاپتہ افراد کے مقدمات کی تحقیقات کیلئے مسنگ پرسنز سیل تشکیل دیدیا ہے جس کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی کرائم برانچ ہوں گے۔