چین 600 برس کے بعد پھر گلوبل طاقت بننے جا رہا ہے
لاہور (محمد دلاور چودھری) چین 600 برس کے بعد ایک بار پھر گلوبل طاقت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ تیرہویں صدی میں جب یورپ کو رومن امپائر کی مغربی سلطنت کی تباہ حالی کے بعد پھر سے ’’بلیک ڈیتھ‘‘ سمیت کئی بیماریوں کا سامنا تھا اور اس کی اقتصادی حالت بھی انتہائی ابتر تھی اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ نام کے کسی ملک کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا چین اس وقت عالمی طاقت تھا۔ مِنگ چین کے دور 1421ء میں چین نے ایک انتہائی بڑا بحری بیڑہ تیار کیا تھا جو پوری دنیا کے سفر پر گیا۔ یہ بحری بیڑہ (یونگل) یورپ کے سفر پر بھی گیا اور اٹلی کی بندرگاہ پر بھی لنگرانداز ہوا تھا۔ اس بحری بیڑہ کے بارے میں مشہور برطانوی مورخ ’’گیون مینزیس‘‘ نے لکھا ہے کہ یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے عمل کو تیز کرنے میں اس بحری بیڑے کا بھی بہت اہم کردار تھا۔ ہسپانیہ پر مسلمانوں کے بعد حکومت کرنے والے بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلہ (جو اس وقت بڑی طاقت سمجھے جاتے تھے اور انہی کے دور میں کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا) نے ایک بہت بڑا بحری بیڑہ تیار کیا تھا جسے آج بھی ’’سپینش آرمیڈا‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے ’’قصیدے‘‘ مغرب میں آج بھی پڑھے جاتے ہیں۔ چین کا 1421ء میں یورپ اور دوسرے براعظموں کی طرف سفر کرنے والا بحری بیڑا اس ’’آرمیڈا‘‘ سے چار گنا بڑا تھا۔ مِنگ دور کے آخری دنوں میں چین پھر ’’تنہائی‘‘ میں چلا گیا اور بیرونی دنیا سے اس نے براہ راست رابطہ ختم کر دیا تھا۔ اب قریباً 600 برس کے بعد چین دوبارہ انتہائی تیزی سے ابھر رہا ہے وہ چین جو بیرونی دنیا سے کٹ کر رہ گیا تھا‘ معاشی اور سٹرٹیجک اعتبار سے پھر دنیا پر چھا رہا ہے اور چند برسوں میں دنیا کی سب سے بڑی جی ڈی پی بننے جا رہا ہے۔ اس کی تجارت کئی ترقی یافتہ ملکوں سے بڑھ گئی ہے۔ وہ یورپ اور ایشیا کے ساتھ سڑک‘ سمندری اور فضائی روابط انتہائی مستحکم کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ 2009ء میں امریکہ اور یورپ کی اقتصادی ابتری کے دور میں اربوں ڈالر کا ٹریژری بل بھی امریکہ کو دے کر ان کے "Economic meltdown" کو روکا اور انکی معیشت کو سہارا دیا۔ جنوبی ایشیا میں بھی چینی اثر و رسوخ نے بھارت کو مات دے دی ہے۔ سارک کے سارے ملکوں سے چین کے بہت اچھے تعلقات قائم ہو چکے ہیں اور خود بھارت بھی اس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بننے پر مجبور ہو چکا ہے۔ (چین اور بھارت کے درمیان 90 ارب ڈالر سالانہ کی باہمی تجارت ہوتی ہے جو دو ملکوں کے درمیان دنیا بھر کی سب سے بڑی باہمی تجارت ہے لیکن یہ بھارت کیلئے انتہائی غیر متوازن اور چین کے انتہائی حق میں ہے تقریباً 70 ارب ڈالر سے زائد کا تیار سامان بھارت کو خریدنا پڑتا ہے جبکہ جواب میں زیادہ تر خام مال ہی بھارت سے چین جاتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ رواں برس 15 سال کے بعد چین کی ترقی کی رفتار کم ہوئی ہے لیکن اس کی وجہ اقتصادی ماہرین بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کوئی منفی بات نہیں بلکہ "Economic saturation" کی ایک قسم ہے اور اقتصادی ماہرین واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ اس کا چین کے گلوبل اقتصادی طاقت بننے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ دیکھنا ہے کہ ان حالات میں ہم اپنے بہترین دوست کی دوستی کا فائدہ کہاں تک اٹھا پاتے ہیں اور اقتصادی راہداری کو کب تک حتمی شکل دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ حالات کا صحیح فائدہ اٹھانے کیلئے ہمیں اقتصادی معاہدوں کے ساتھ ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کو بھی بہتر انداز میں مرتب کرنا ہو گا کیونکہ چین تو ہماری ترقی اور خوشحالی کیلئے سنجیدہ ہے لیکن کیا ہم ہیں؟