پی ٹی آئی کے 126 روزہ دھرنے میں کئی اتار چڑھاﺅ آئے
لاہور (فرخ سعید خواجہ) تحریک انصاف کے اسلام آباد میں 126 دن کے دھرنے میں کئی اتار چڑھاﺅ آئے۔ کئی مرتبہ محسوس ہوتا تھا کہ حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیگی اور کبھی لگتا تھا کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو نامراد واپس لوٹنا پڑیگا۔ 15 اگست کو شروع ہونیوالے دھرنے کے اجمالی جائزہ کے مطابق 15 اگست کو عمران کا آزادی اور طاہر القادری کا انقلاب مارچ آگے پیچھے اسلام آباد پہنچے۔ عمران نے دھرنے میں خطاب میں کہا کہ نواز شریف استعفیٰ تیار رکھیں، طاہر القادری نے کہا کہ انقلاب ضرور آئیگا اور ان دونوں کے برعکس شہباز شریف نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ 16 اگست کو عمران خان نے دھرنے سے تین بار خطاب کیا اور وزیراعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ دہرایا۔ ادھر سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے سلسلے میں ایڈیشنل سیشج جج لاہور نے وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ شہباز شریف سمیت 21 افراد پر مقدمہ درج کرنے کا حکم دیدیا۔ 17 اگست کو عمران خان نے وزیراعظم کو 48 گھنٹے میں مستعفی ہونے کا الٹی میٹم دیا۔ 18 اگست کو عمران خان نے خیبر پی کے کے سوا اسمبلیوں سے تحریک انصاف کے ممبران کے استعفوں کا اعلان کر دیا۔ 19 اگست کو دھرنے کے شرکاءریڈ زون میں آ گئے جس سے کشیدگی بڑھ گئی تاہم فوجی ترجمان کا بیان آیا کہ ریڈ زون کی حفاظت فوج کر رہی ہے، ریاست کی علامت عمارتوں کا احترام کیا جائے اور قومی مفادات میں مذاکرات کئے جائیں، عمران خان نے دھرنے سے خطاب میں اعلان کر دیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے آج شام تک استعفے نہ دیا تو ہم وزیراعظم ہاﺅس جائیں گے۔ صورتحال کی کشیدگی کو محسوس کرتے ہوئے وزیراعظم اور آرمی چیف میں ملاقات ہوئی اور باہم تبادلہ خیال کیا گیا۔ 20 اگست کو قومی اسمبلی کی 12 میں سے 11 جماعتوں نواز شریف کی صدارت میں فیصلہ کیا کہ وزیراعظم مستعفی نہیں ہونگے۔ یہ اعلان کا سننا تھا کہ طاہر القادری کے حکم پر انقلاب مارچ کے شرکاءنے پارلیمنٹ کا گھیراﺅ کر لیا۔ 21 اگست کو حکومتی اپوزیشن کمیٹیوں کے مذاکرات معطل کر دیئے گئے اور عمران نے دھرنے میں اعلان کیا کہ کل تک امپائر انگلی اٹھا دیگا۔ 22 اگست کو تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے ممبران نے رکنیت سے استعفے اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروا دیئے۔ 23 اگست کو عمران نے نواز شریف کے 30 روز کیلئے استعفے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ دھاندلی ثابت نہ ہو تو وہ واپس آ جائیں۔ 24 اگست کو عمران خان نے خطاب میں عوام کو سرکاری بنکوں سے پیسے نکلوانے کی کال دیدی۔ 25 اگست کو وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ملاقات ہوئی جس سے اگلے روز 26 اگست کو وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں اعلان کیا کہ 12 اکتوبر 1999ءکی طرح اب بھی استعفیٰ نہیں دوں گا اور ہر قسم کے حالات سے مقابلہ کرونگا۔ 27 اگست کو پی ٹی آئی کے ممبران پنجاب اسمبلی نے بھی اسمبلی سیکرٹریٹ میں استعفے جمع کروا دیئے۔ 28 اگست کو عمران اور ڈاکٹر طاہر القادری کی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کو ناقابل قبول شرط قرار دیدیا جبکہ باقی مطالبات کے تسلیم کئے جانے اور ان پر عمل کروانے کی یقین دہانی کروائی۔ 29 اگست کو ایک نیا تنازع اٹھ کھڑا ہوا کہ فوج کو وزیراعظم نواز شریف نے ثالثی کیلئے کہا ہے کہ نہیں کہا۔ 30 اگست کو مظاہرین وزیراعظم ہاﺅس کی طرف بڑھے جس پر ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور شیلنگ ہوئی۔ 31 اگست کو کور کمانڈر کانفرنس ہوئی اور آئی ایس پی آر نے اعلامیہ جاری کیا کہ جمہوریت کی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں، طاقت کا مزید استعمال مسئلہ بگاڑ دے گا لہٰذا مسئلے کا فوری سیاسی حل نکالا جائے۔ ادھر ریڈزون میں جنگ ہوتی رہی اور پولیس مظاہرین جھڑپوں میں 3 افراد جاں بحق اور 600 زخمی ہو گئے۔ یکم ستمبر کو ڈنڈا بردار مظاہرین پی ٹی وی کی بلڈنگ میں گھس گئے اور توڑ پھوڑ کی جبکہ پارلیمنٹ ہاﺅس کے سبزہ زار میں ان کا دھرنا بھی جاری رہا۔ یکم ستمبر ہی کو ایک اور اہم واقعہ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی صدر مخدوم جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس کی صورت میں رونما ہوا۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ عمران نے انہیں بتایا کہ فوج کی مرضی کے خلاف نہیں چل سکتے اور یہ کہ طاہر القادری کا ساتھ دیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس سے سیاسی بھونچال آ گیا۔ فوجی ترجمان کی وضاحت سامنے آئی کہ فوج تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی پشت پناہی نہیں کر رہی۔ 2 ستمبر کو طاہر القادری اپنے کنٹینر سے عمران خان کے کنٹینر پر چلے گئے اور بھائی بھائی ہونے کا اعلان کیا، 4 ستمبر کو عوامی جمہوریہ چین کے صدر کے دورہ پاکستان کے ملتوی ہونے کی خبر منظر عام پر آ گئی۔ ادھر پنجاب و آزاد کشمیر میں خوفناک بارشیں شروع ہو گئیں اور 5 ستمبر کو پنجاب میں بدترین سیلاب آ گیا تاہم دھرنا جاری رہا۔ 8 ستمبر کو مختلف سیاسی رہنماﺅں کی جانب سے دھرنا ختم کرنے کی اپیلیں سامنے آئیں تاکہ سیلاب زدگان کی مل کر مدد کی جا سکے۔ الطاف حسین اور شہباز شریف کی جانب سے کی گئی اپیلوں کو مسترد کر دیا گیا۔ 10 ستمبر کو وزیراعظم نواز شریف نے بھی دھرنا ختم کرنے کی اپیل کر دی۔ 11 ستمبر کو عمران خان نے دھرنے میں اعلان کیا کہ نواز شریف کے استعفے تک نہیں جائیں گے۔ ادھر پارلیمانی قائدین کی کمیٹی نے مذاکرات کا جائزہ لینے کیلئے پانچ رکنی کمیٹی بنائی جبکہ وفاقی وزیر اسحاق ڈار نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ تحریک انصاف کے 6 میں سے ساڑھے 5 مطالبات تسلیم کر لئے ہیں۔ 13 ستمبر کو فوجی ترجمان ایک مرتبہ پھر بولے اور انہوں نے کہا کہ سکرپٹ رائٹر والی باتوں پر افسوس ہوا، ہمارا سیاسی بحران سے کوئی تعلق نہیں۔ ادھر تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے ایک مرتبہ پھر سیاستدانوں کے جرگہ سے مذاکرات ملتوی کر دیئے۔ 14 ستمبر کو تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے ہنگاموں میں ملوث 100 کارکنوں کو ریمانڈ پر جیل منتقل کر دیا گیا۔ اسلام آباد کچہری میں اس موقع پر ہنگامہ ہوا جس میں اعظم سواتی سمیت دیگر رہنماﺅں کو گرفتار کیا گیا اور پھر رہا کر دیا گیا۔ 17 ستمبر کو عمران خان نے چیف جسٹس کو صورت حال کا نوٹس لینے کی اپیل کی اور کہا کہ اگر انہوں نے ایکشن نہ لیا تو خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔ 19 ستمبر کو عمران نے اعلان کیا کہ سیاسی جرگہ کو بتا دیا کہ نواز شریف سے کوئی بات نہیں ہو گی، 20 ستمبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جمہوریت کے حق میں اور دھرنے کی مذمت میں متفقہ قرارداد منظور کی گئی۔ 21 ستمبر کو عمران خان نے کراچی میں جلسہ¿ عام سے خطاب کیا، 23 ستمبر کو افواج پاکساتن کے 6 میجر جنرل لیفٹیننٹ جنرل بنا دیئے گئے اور انہیں گوجرانوالہ، پشاور، منگلا اور کراچی کے کور کمانڈر تعینات کرنے کا اعلان کیا گیا۔ عمران خان نے 28 ستمبر کو لاہور کے مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کا اعلان کیا، 26 ستمبر کو سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کو استعفوں کی تصدیق کیلئے بلایا تاہم وہ لابی میں گئے اور اصرار کیا کہ سپیکر قومی اسمبلی ان ک ےپاس آ کر استعفوں کی تصدیق کریں جبکہ ایاز صادق سپیکر چیمبر میں ان کا انتظار کرتے رہے، یہ معاملہ اب تک لٹکا ہوا ہے۔ 27 ستمبر کو وزیراعظم کی نااہلی کی درخواست سپریم کورٹ نے سماعت کیلئے منظور کر لی، 28 ستمبر کو تحریک انصاف کے 4 کارکنوں کے قتل کا مقدمہ ایڈیشنل سیش جج نے نواز شریف، شہباز شریف، چودھری نثار علی خان سمیت دیگر کے خلاف درج کرنے کا حکم دیدیا۔ 3 اکتوبر کو طاہر القادری نے اپنے سابقہ موقف کے برعکس عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ پارلیمنٹ میں آ کر نظام تبدیل کرینگے۔ ان کے اس اعلان کا ملک بھر میں خیرمقدم کیا گیا۔ 4 اکتوبر کو طاہر القادری نے پچھلے اٹھارہ انیس دن سے دھرنے میں شریک لاہور اور گوجرانوالہ کے اپنے کارکنوں کو گھر جانے کی اجازت دیدی۔ 6 اکتوبر عوامی تحریک کے صرف 20 فیصد کارکن دھرنے میں رہ گئے باقی ڈاکٹر طاہر القادری کی اجازت سے گھروں کو چلے گئے۔ 10 اکتوبر کو ملتان کے جلسہ¿ عام میں بھگدڑ مچنے سے کئی افراد جاں بحق ہو گئے۔ تحریک انصاف نے اس کا ذمہ دار پنجاب حکومت، ضلعی حکومت اور پولیس کو قرار دیدیا۔ 17 اکتوبر کو ملتان میں ضمنی الیکشن ہوئے جس میں مخدوم جاوید ہاشمی کو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار عامر ڈوگر نے شکست دیدی۔ 18 اکتوبر کو عمران خان نے سرگودھا میں جلسہ¿ عام سے خطاب میں کہا کہ قوم تیار ہو جائے اگلا سال الیکشن کا ہے۔ 22 اکتوبر کو ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ اب ہر شہر میں د دن دھرنا دینگے جس کا آغاز ایبٹ آباد سے ہو گا۔ 2 نومبر کو واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا جس میں 3 رینجرز اہلکاروں، بچوں او خواتین سمیت 59 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 125 افراد زخمی ہوئے۔ 30 نومبر کو عمران خان نے لاہور، فیصل آباد، کراچی اور پھر پورے پاکستان کو بند کرنے کا اعلان کر دیا اور اپنے اس اعلان کو اپنا پلان سی قرار دیا۔ پلان سی کے مطابق انہوں نے 8 دسمبر کو فیصل آباد، 12 دسمبر کو کراچی اور 15 دسمبر کو لاہور میں ہڑتال کروائی جبکہ 18 دسمبر کو پاکستان بند کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم 16 دسمبر کو سانحہ پشاور ہونے کے بعد انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کی گورنر ہاﺅس پشاور میں بلائی گئی پارلیمانی لیڈروں کی کانفرنس میں شرکت کی اور وہاں سے اسلام آباد واپسی پر دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
اجمالی جائزہ