عدم توجہ‘ نااہلی‘ پنجاب میں سیم و تھور سے متاثرہ زمین کو مکمل قابل کاشت نہ بنایا جا سکا
لاہور (ندیم بسرا) محکمہ زراعت پنجاب کے اعلیٰ حکام کی عدم توجہ اور فیلڈ میں کام کرنے والے افسران و عملہ کی نااہلی سے صوبے میں سیم اور تھور سے متاثرہ زمین کو مکمل قابل کاشت نہ بنایا جا سکا۔ تفصیلات کے مطابق محکمہ زراعت پنجاب نے تسلیم کیا ہے کہ صوبہ پنجاب کے نہری آبپاشی علاقوں میں سیم سے متاثرہ رقبہ 50 ہزار ایکڑ اور کلر و تھور سے متاثرہ رقبہ اکیس لاکھ ایکڑ ہے۔ اس حوالے سے سائل سروے آف پنجاب کے مطابق کلر و تھور سے متاثرہ رقبہ 55 لاکھ ایکڑ ہے۔ پنجاب کے 3 اضلاع جھنگ‘ سرگودھا اور حافظ آباد میں سیم اور کلراٹھی زمینوں کی بحالی کا منصوبہ بائیو سیلائن II حکومت پنجاب اور یو این ڈی پی کے اشتراک سے 5 برسوں میں مکمل ہوا۔ محکمہ زراعت پنجاب نے کلراٹھی زمینوں کی بحالی کیلئے ایک سٹیشن سوائل سیلنٹی اپروچ سٹیشن رحیم یار خان میں 2013ءتک مکمل کیا مگر زمین مکمل طورپر قابل کاشت نہیں ہوئی۔ دوسری طرف منصوبہ سیم و کلراٹھی زمینوںکی بحالی کے تحت 2 لاکھ ایکڑ سیم اور کلراٹھی زمینوں کو قابل کاشت بنانا تھا مگر 2 لاکھ ایکڑ رقبے کی بجائے ایک لاکھ اناسی ہزار ایکڑ رقبے کو قابل کاشت بنایا گیا۔ محکمہ زراعت پنجاب کی طرف سے کاشتکاروں کو جپسم اور دیگر پیداواری مداخل فراہم کرنے کی ناکامی نے سیم و کلر زدہ زمینوں میں اضافہ کیا ہے۔ محکمہ زراعت پنجاب کا دعویٰ ہے کہ 2014-15ءمیں ایک ہزار ایکڑ رقبے کی اصلاح کیلئے تقریباً ایک کروڑ روپے تک خرچ کر رہا ہے۔ محکمہ زراعت پنجاب کے سیکرٹری‘ سپیشل سیکرٹری سمیت تمام ڈائریکٹر جنرل زراعت کی سستی اور نامناسب چیک اینڈ بیلنس اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ تمام تر منصوبے 100 فیصد کامیاب نہیں ہو رہے۔
سیم و تھور