کارکنوں کی ماورائے عدالت ہلاکتیں ہو رہی ہیں، متحدہ کا سندھ اسمبلی میں شدید احتجاج، ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں
کراچی (این این آئی) سندھ اسمبلی میں منگل کو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ارکان نے اس وقت زبردست شور شرابہ کرتے ہوئے واک آئوٹ کیا جب ان کی تحریک التواء کو ڈپٹی سپیکر شہلا رضا نے خلاف ضابطہ قرار دے دیا ۔ ایم کیو ایم کے ارکان نے ایوان میں زبردست نعرے بازی کی اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ شور شرابے اور نعرے بازی میں اجلاس کی کارروائی آگے نہ چل سکی اور اجلاس جمعہ کی صبح تک ملتوی کردیا گیا۔ یہ تحریک التواء ایم کیو ایم کے رکن محمد حسین نے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کا ماورائے عدالت قتل جاری ہے۔ حکومتی بنچوں کی طرف سے کارکنوں کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا گیا لیکن قرارداد کی مخالفت کی گئی۔ صوبائی وزراء نے کہا کہ یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ یہ قتل ماورائے عدالت ہیں۔ تحریک التواء کے ساتھ کوئی ٹھوس شواہد بھی نہیں دیئے گئے۔ وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہا کہ ہمیں ایسے واقعات پر بہت افسوس ہے اور اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ کسی ادارے نے ایسے قتل کرنے کا فیصلہ کیا لہٰذا یہ تحریک التواء مفروضے پر مبنی ہے۔ ایوان کو شواہد کے ساتھ مطمئن کیا جائے ۔ اگر میں یہ کہوں کہ پرسوں کراچی میں مارے جانے والے 17 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے تو مجھے یہ ثابت کرنا پڑے گا۔ متحدہ کے رکن عامر معین پیرزادہ نے کہا قصبہ علی گڑھ میں یونٹ 132 کے ہمارے کارکن طاہر بھائی کو اٹھایا گیا ۔ تمام ادارے یہ کہتے رہے کہ طاہر بھائی ان کے پاس نہیں۔ ہمارے پاس وڈیو بھی موجود ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ ماورائے عدالت کیس ہے۔ ہم نے یہ وڈیو حکومت سندھ کو بھی مہیا کی ہے لیکن کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ اس پر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ حکومت ہر غیر قانونی کام کی مذمت کرتی ہے اور اس کے خلاف ایکشن بھی لے گی۔ واقعہ کے ثبوت ہونے چاہئیں۔ ڈپٹی سپیکر شہلا رضا نے کہا کہ تحریک التواء کے حسب ضابطہ ہونے یا نہ ہونے پر بحث کے لیے آدھا گھنٹہ ہوتا ہے، اب 38 منٹ ہو چکے ہیں ۔ میں اپنی رولنگ دیتی ہوں ۔ اس پر ایم کیو ایم کے ارکان کھڑے ہوگئے اور انہوں نے احتجاج شروع کردیا۔ ایوان میں زبردست شور شرابہ ہوا۔ ایم کیو ایم کے ارکان نے ایجنڈے کی کاپیاں بھی پھاڑ دیں۔ اس پر ڈپٹی سپیکر نے اجلاس جمعہ کی صبح تک ملتوی کر دی۔ قبل ازیں صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے نکتہ اعتراض پر ایوان کو بتایا کہ کنٹری گارڈن سے اٹھائے گئے ایم کیو ایم کے 5 کارکن پولیس کے پاس نہیں ہیں ۔ اس کے باوجود ان کارکنوں کا پتہ چلانے کے لئے آئی جی سندھ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی۔ انہوں نے کہا کہ ٹارگٹڈ آپریشن کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں ہو رہا، اسے متنازع نہ بنایا جائے۔ ایم کیو ایم کے فیصل علی سبزواری نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ ہمارے جن 5 کارکنوں کو اغواء کیا گیا تھا، وہ پولیس کے پاس ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں تو پھر کس ادارے کے پاس ہیں۔ انہوں نے کہا یہ کراچی ہے، فاٹا کا علاقہ نہیں کہ بغیر یونیفارم کے لوگ بغیر نمبر پلیٹ والی ڈبل کیبن گاڑیوں میں بیٹھ کر آئیں اور لوگوںکو اغواء کرکے لے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان افراد کے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو ہمیں بتایا جائے۔