عالمی اردو کانفرنس کا دوسرا روز‘ نعت‘ تعلیم اور شاعری کو اجاگر کیا گیا
کراچی(کلچرل رپورٹر) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز پانچ سیشن ہوئے۔ پہلا سیشن نعت دوسرا زبان و ادب اور تعلیم‘ تیسرا غالب سے اقبال تک کی شاعری‘ چوتھا نئے سماجی ذرائع اور ابلا غ کی صورتحال جبکہ پانچویں اجلاس میں پاکستانی زبانوں اور قومی ہم آہنگی کے موضوعات پر مقالے پڑھے گئے اور روشنی ڈالی گئی۔ تفصیلات کے مطابق پروفیسر سحر انصاری نے حمت و نعت اور ہماری روایات کے موضوع پر منعقدہ اجلاس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حمد و نعت کا سلسلہ ہمارے ہاں800 سال سے جاری ہے۔ جس میں غالب‘ بہادر شاہ ظفر‘ سمیت دیگر شعراءشامل ہیں۔ اس موقع پر رﺅف پاریکھ نے کہا ہے کہ نعت گوئی دینی عقیدے کی بات ہے اس میں کی گئی شاعری عظیم ورثہ ہے۔ ڈاکٹر جہاں آرا لطفی نے کہا کہ نعت بہت سارے عاشقان رسول نے شاعری کی۔ عزیز احسن نے کہا کہ نعت گوئی ایک عقیدت ہے اس میں حضور کی سیرت نظر آتی ہے جس سے صحیح راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ نعت گوئی میں الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے احتیاط برتنی چاہئے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ حمد و نعت کا لفظ بہت پرانا استعمال ہے لیکن1988ءمیں حمد و نعت کے نام کو استعمال کیا گیا جس کی نشاندہی پروفیسر سحر انصاری نے کی کہ صدیاں قبل حمد کے نام کو استعمال کیا گیا ہے اس موقع پر انہوں نے حمد کے کچھ اشعار سنائے۔ عنبرین حسین عنبر نے کہا کہ صدیوں پہلے شروع ہونے والی نعت گوئی میں مولانا حالی‘ مولانا ظفر سمیت دیگر نے نعت گوئی کے لئے شعر لکھے‘ نعت گوئی ایک مذہبی شاعری ہے۔ بہت سارے شاعروںنے نعت نگاری کی ہے۔ نعت میں فکر اور سیرت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے بھی نعت گوئی کو عروج پر پہنچادیا۔ مولانا ظفر علی خان‘ حفیظ جالندھری نے بھی نعت نگاری میں بہت کام کیا اورآج بھی نعت گوئی میں کام جاری ہے۔ زبان و ادب کا فروغ اور نصاب تعلیم کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ہدف حاصل کرنے کے لئے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی پالیسیاں ٹھیک ہیں مگر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر سید جعفر احمد نے سماجی علوم کی تدریس اور جدید دنیا پروفیسر ہارون رشید نے نصاب تعلیم اورعصری تقاضے نحبیبہ عارف‘ زبان و ادب کا فروغ نصاب پروفیسر انیس زیدی نے ہمارا تعلیمی نظام اور عصرحاضر کے رجحانات اور نعمان نقوی نے لبرل آرٹس اور ہمارا نصاب پر مقالے پڑھے نظامت نزہت عباسی نے کی۔اجلاس بعنوان چہ مستانی می رود‘غالب سے اقبال تک پرلیکچر دیتے ہوئے ڈاکٹر نعمان الحق نے کہا ہے کہ اقبال کو غالب پر فوقیت حاصل ہے غالب اور اقبال کی پہچان مشترکہ جدید شاعری ہے۔چوتھے اجلاس”نئے سماجی ذرائع اور ابلاغ کی صورتحال“ کے شرکاءمیں رضا علی عابدی ، غازی صلاح الدین، مظہر عباس، نورالہدیٰ شاہ، ڈاکٹر نعمان نقوی، وسعت اللہ خان، ڈاکٹر محمدایوب شیخ شامل تھے۔ اس موقع پر سینئر براڈکاسٹر رضا علی عابدی نے کہا کہ سوشل میڈیا نے بہت سے پرانے رشتوں کو جوڑ دیا ہے۔ غازی صلاح الدین نے کہاکہ میڈیا کے مثبت اثرات تعلیم یافتہ معاشرے پر بہتر انداز میں مرتب ہوتے ہیں۔سوشل میڈیا نے ادب کو بازار کا ادب بنادیا ہے اب تربیت یافتہ لوگوں کا ادب نہیں رہا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچنا مشکل ہے۔ سینئر تجزیہ کار اطہر عباس نے کہاکہ سوشل میڈیا میں بڑی غلطی یہ ہے کہ اس میں خبر کو چیک نہیں کیا جاتا۔اکٹر نعمان نقوی (برلن) نے کہا ہے کہ زبان اور فکر میں گہرا تعلق ہے سوشل میڈیا نے اس کو نقصان پہنچایا ہے۔ خبر سے ذہن منتشر ہوتا ہے۔سینئر صحافی وسعت اللہ خان نے کہاکہ سوشل میڈیا کا ایک بڑا اور اہم فائدہ یہ ہوا کہ اس طرح غیر پسندیدہ لوگوں کی زبان بندی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیاگیا ہے۔ ڈرامہ نگار نورالہدیٰ شاہ نے کہاکہ اس نئی ٹیکنالوجی میں میں بہت آگے تک پہنچ گئی ہوں۔ اب پین سے نہیں کمپیوٹر سے لکھ رہی ہوں۔ اس میڈیم کے ذریعے بہت سے خوفناک اور ناقابلِ فراموش واقعات کو دیکھا۔ پانچویں سیشن جس کا موضوع پاکستانی زبانیں اورقومی ہم آہنگی تھا پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر قاسم بگھیو نے کہا کہ ہمیں اپنے کلچر کو آگے بڑھانے کے لئے خود جدوجہد کرنی ہوگی۔ لوگ مرجاتے ہیں۔ ثقافتیں زندہ رہتی ہیں۔ اس موقع پر جامی چانڈیو ‘ گل حسن کلمتی‘ ڈاکٹر صغریٰ صدف‘ رمضان علی‘ڈاکٹر نذیر تبسم‘ڈاکٹر فہمیدہ ریاض‘ احمد فواد‘ ڈاکٹر انوار احمد اور سید مظہر جمیل نے بھی خطاب کیا۔ نظامت کے فرائض حارف خلیق نے انجام دیئے۔
اردو کانفرنس