عمران فاروق قتل کیس پاکستان میں چلانے کے فیصلہ پر قانونی ماہرین کا متضاد رد عمل
کراچی(سالک مجید) پاکستان کے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے عمران فاروق قتل کیس کی ایف آئی آر پاکستان میں درج کرنے کے اعلان پر ملک کے سرکردہ آئینی و قانونی ماہرین نے متضاد آر اء کا اظہار کیا ہے۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان کا اعلان حیران کن اور مضحکہ خیز ہے جبکہ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان کی بات قانون کی نظر میں درست ہے اور قانون اجازت دیتا ہے کہ بیرون ملک اگر کوئی پاکستانی جرم کرے تو اس کے پکڑے جانے پر پاکستان کے اندر موجود قانون کے مطابق اس جرم کی سزا دی جاسکتی ہے۔ عمران فاروق قتل کیس میں مقتول اور قاتل اگر دونوں پاکستانی شہری ہیں تو یہ ایف آئی آر بھی پاکستان میںدرج ہوسکتی ہے اور پاکستانی عدالت میں کیس چلاکر سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔ لیکن بیرون ملک ہونے والے قتل کے کیس میں قاتلوں کے خلاف جرم ثابت کرنا بہت بڑا چیلنج بن جائے گا۔ عینی شاہد اور ناقابل تردید شہادتیں درکا ہوں گی اور ایف آئی آر کی تاخیر سے پاکستان میں درج کرنے کی وجوہات اور وفعات بھی دینا پڑ ے گی۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر عمران فاروق قتل کیس سمیت کسی بھی قتل کے حوالے سے یہ اطلاعات موصول ہوں کہ قاتل پاکستان میں موجود ہے تو اس کے خلاف کئی سال گذر جانے کے بعد بھی ایف آئی آر درج کرکے مقدمہ چلایاجاسکتا ہے۔ قانون میں اس کی گنجائش ہے اور آخری فیصلہ عدالت کرے گی کہ کیس قابل سماعت ہے یا نہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر شاہ نواز بھٹو سمیت کسی بھی پاکستانی کے بارے میں کوئی نئی مگر ٹھوس معلومات سامنے آتی ہے تو کیس درج کرکے چلایا جاسکتا ہے بشرطیکہ قاتل یا مجرم پاکستان میں موجود ہو۔ سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج اور ماہر قانون خواجہ نوید احمد نے نوائے وقت کے استفار پر کہا کہ عمران فاروق قتل کیس کی ایف آئی آر پاکستان میں درج ہوسکتی ہے کیونکہ پاکستان پینل کوڈ پی پی سی کا سیکشن 3 اجازت دیتا ہے کہ اگر کوئی پاکستانی شہری پاکستان سے باہر کسی ملک میں جرم کرے اور پاکستان آکر پکڑا جائے تو اس کے خلاف کیس چلاکر وہی سزا دی جاسکتی ہے جو اس جرم کی سزا پاکستان میں سرزد ہونے پر دی جاسکتی ہے اگر تاخیر سے ایف آئی آر درج ہوتو اس کی دفعات پیش کرنی پڑتی ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد نے کہا کہ ایسی کوئی مثال نہیں ہے کہ قتل لندن میں ہو ا ہو اور مقدمہ پاکستان میں درج ہو۔ وزیر کا بیان مضحکہ خیز اور حیران کن ہے۔ اگر دوسرے ملک میں قتل ہوا ہے وہاں مقدمہ درج ہوا تو پکڑے گئے ملزمان کو اس ملک کے حوالے کردینا چاہئے۔ اگر تحویل مجرمان کا معاہدہ نہیں ہے اور کیس پاکستان میں چلانا چاہتے ہیں تو یہ کیس چلے گا ۔قاتلوں کا جرم ثابت کرنے کے لئے عینی شاہد اور ٹھوس شہادتیں درکار ہوں گی وہ لندن سے کیسے پاکستان آئیں گے۔ میرے نزدیک تو لندن میں قتل ہوا ہے اس کی ایف آئی آر پاکستان میں در ج کرنے کی قانون اجازت نہیں دیتا۔بیرسٹر فروغ اے نسیم نے کہا کہ جہاںواقعہ ہوتا ہے وہاں پر ہی ایف آئی آر درج کی جاسکتی ہے اگر کسی شخص کو پاکستان سے باہر قتل کیا گیا ہے اور اسکے قتل کی سازش پاکستان میں تیار کی گئی ہے تو پھر صرف قتل کے سازش کی حد تک ایف آئی آر بن سکتی ہے۔