کروڑوں کے نذرانے کہاں جاتے ہیں، آرمی چیف کو جواب نہ مل سکا: نثار
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی + اے این این+این این آئی+ آئی این پی) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے سہون شریف درگا ہ پر حملے کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنماوں کی جانب سے وفاقی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرائے جانے کے معاملے پر آخر کار اپنی خاموشی توڑ دی اور واضح کیا ہے سہون شریف درگاہ کی سکیورٹی وفاق نہیں صوبے کی ذمہ داری تھی،دہشتگردی پر سیاست گناہ عظیم ہے،ہم نے صوبوں کو یہ بتادیا تھا اس جگہسے دہشت گرد آئیں گے اور ان کی یہ حکمت عملی ہوگی ، اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا،سندھ کے چیف سیکرٹری سے آرمی چیف نے بھی سوال کئے اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا،کیا واک تھرو گیٹ فعال رکھنا ہماری ذمہ داری تھی ؟،دہشتگردی میں کمی آئی ہے یہ بالکل ختم نہیں ہوئی،کچھ واقعات ہماری اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے بھی ہوجاتے ہیں، ہمیں دہشت گرد تنظیموں اور ان کے نمائندوں کو مکمل بلیک لسٹ کرناہے،ہم نے کسی چیز کا کریڈٹ نہ لینے اورکسی پر تنقید نہ کرنے پر عمل کیا، دہشت گردی کے جنگ میں انفرادی کریڈٹ لینا ٹھیک نہیں،میڈیا تشویش کے بادلوں کو نزدیک نہ آنے دے ،عوام کو متحرک اور پر عزم کریں ،وہ جذبہ پیدا کریں، جس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جا سکے۔ یہاں وزیر مملکت مریم اورنگزیب کے ہمراہ سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے چودھری نثار نے کہا وزیراعظم نوازشریف بخار کی حالت میں سیہون شریف گئے اور زخمیوں کی عیادت کی اس موقع پر چیف سیکرٹری سندھ نے ہمیں روایتی بریفنگ دی جس کے بعد میں نے سوال کیا آپ دھماکے کے بعد کی صورتحال کو چھوڑیں پہلے کی صورتحال پر بریفنگ دیں ۔ اتنا بڑا سیکیورٹی لیپ کیوں ہوا؟۔ اس پر چیف سیکرٹری نے بتایا واک تھرو گیٹ خراب تھے بجلی نہیں تھی اور سیکیورٹی عملہ بھی نہیں تھا ۔ وزیرداخلہ نے کہا اس بریفنگ کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی سوال اٹھایا سیہون شریف مزار سے حکومت سندھ کو سالانہ کروڑوں روپے کی آمدن ہوتی ہے جو زائرین نذرانے کی صورت میں دیتے ہیں تو یہ رقم کہاں جاتی ہے اس رقم کو سیکیورتی انتظامات پر کیوں استعمال نہیں کیا جاتا ۔ چیف سیکرٹری کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ انہوں نے کہا دہشتگردی کے واقعات میں کالعدم اور عسکریت پسند گروپوں کو میڈیا میں بالکل کوریج نہیں ملنی چاہیے ۔ میڈیا کو دہشتگردوں کو مکمل بلیک لسٹ کرنا چاہیے۔ ان کا مکمل بائیکاٹ ہونا چاہیے ایک وقت تھا طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کے انٹرویو براہ راست چلا کرتے تھے آج صورتحال مختلف ہے۔ میڈیا کے تعاون کے بغیر دہشتگردی پر قابو نہیں پایاجاسکتا۔ میڈیا کو اتحاد یکجہتی کی فضا پیدا کرنی چاہیے۔ انہوں نے میڈیا کو پیغام دیتے ہوئے کہا تشویش کے بادلوں کو نزدیک نہ آنے دیں،عوام کو متحرک اور پر عزم کریں ،وہ جذبہ پیدا کریں، جس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جا سکے، یکجہتی اور قومی عزم کے اظہار سے عوام مضبوط ہوں گے، میڈیا خوف کی فضا پیدا کرے گا تو قوم میں خوف پیدا ہوگا۔آج تجزیہ کریں پچھلے ساڑھے 3 برس میں سیکیورٹی کے حالات میں بہتری آئی یا نہیں؟ملکی سلامتی کے لئے دہشت گردوں کی تشہیر روکنا ضروری ہے۔انہوں نے کہا دہشتگردی کی حالیہ لہر سے ہم کمزور نہیں ہوں گے ۔ جو ن 2013میں روزانہ 6سے 7دھماکے ہوتے تھے ۔ 2016میں ریکارڈ کم ترین دھماکے ہوئے ۔ عالمی برادری نے بھی امن وامان کی صورتحال پر بہتری کا اعتراف کیا ہے ۔ وزیر داخلہ نے کہا دہشتگردی کے خلاف جنگ بدستور جاری ہے۔ ایک وقت تھا افغان سرحد سے روزانہ 40ہزار افراد پاکستان میں داخل ہوتے تھے اور کہیں چیکنگ نہیں تھی اب ہم نے سرحدی نظام کو اپ گریڈ کیا ہے ۔ ہم نے دہشتگردی کے خلاف عملی اقدامات اٹھائے ۔ ایک وقت تھا سال میں دو ہزار دھماکے ہوتے تھے اور اب یہ شرح کم ہو کر ڈھائی تین سو پر آگئی ہے ۔ دس سال بعد پہلی مرتبہ 2016پرامن ترین سال رہا ۔ ہم یہ دعوی نہیں کرتے دہشتگردی ختم کردی مگر کم ضرور ہوئی ہے،کچھ واقعات ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے بھی ہو جاتے ہیں ۔ چودھری نثار نے کہا سیہون شریف دربار کی سیکیورٹی کی ذمہ داری سندھ حکومت کی تھی ۔ اس کے باوجود مجھ پر تنقید کی گئی اور کہا گیا وزیر داخلہ کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔ بلاول بھٹو پہلے ہی مطالبہ کرچکے ہیں۔ ودھری نثار نے سوال کیا ’کیا ہماری وجہ سے وہاں واک تھرو گیٹس فعال نہیں تھے یا بجلی نہ ہونے کے ذمہ دار بھی ہم تھے؟'۔ انہوںنے کہا میں وزیراعظم کے ساتھ سیہون جانے کیلئے نور خان ائر بیس پر کھڑا تھا ٹی وی پر سندھ حکومت کا ترجمان میرے خلاف بول رہا تھا اور ساری ذمہ داری مجھ پر ڈال رہا تھا ۔ انھوں نے کہا ہم دہشتگردی کے معاملے پر سیاست کو گناہ عظیم سمجھتے ہیں ۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں انفرادی کریڈٹ لینا مناسب نہیں،ہم نے کسی چیز کا کریڈٹ نہ لینے اورکسی پر تنقید نہ کرنے پر عمل کیا ،دہشت گردی کے جنگ میں انفرادی کریڈٹ لینا ٹھیک نہیں ۔انہوں نے مزید کہا اے پی ایس واقعے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا،2 سال قبل میڈیا سے دہشت گردوں کو بلیک لسٹ کرنے کی اپیل کی تھی،اہم ملکی امور پر مشاورت کے لئے میڈیا تنظیموں کے سربراہوں کو بلایا ہے،میری درخواست پر میڈیا نے دہشت گردوں کی رننگ کمنٹری ختم کر دی۔اس موقع پر وزیر داخلہ نے صوبائی حکومتوں کے لیے جاری کی گئی ایڈوائزری پر بھی بات کی اور کہا 'ہم نے صوبوں کو یہ بتادیا تھا کہ اس جگہ سے دہشت گرد آئیں گے اور ان کی یہ حکمت عملی ہوگی لیکن اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا'۔ساتھ ہی انہوں نے کہا 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان آسمان سے نہیں آیا، یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، اس کے 10 نکات صوبائی حکومتوں کے ذمہ ہیں۔ اے پی پی کے مطابق چودھری نثار نے کہا سیہون حملے کے بعد اجلاس میں آرمی چیف نے کہا سکیورٹی کا مناسب انتظام کیا جانا چاہئے تھا۔ این این آئی+آئی این پی کے مطابق چودھری نثار نے کہا دہشتگردی کےخلاف جنگ میں سیاست کرنا گناہ عظیم ہے ¾ جون 2013 میں روزانہ 6 ، 7 دھماکے ہوتے تھے ¾ماضی کے مقابلے میں اب ہفتوں دھماکے نہیں ہوتے ¾پاکستان میں بہترسکیورٹی کا اعتراف پوری دنیا نے کیا ¾دہشتگردی کے و اقعات ختم نہیں ہوئے ¾ کمی ہوئی ہے ¾ یکجہتی اور قومی عزم کے اظہار سے عوام مضبوط ہونگے ¾ میڈیا خوف کی فضا پیدا کریگا تو قوم میں خوف پیدا ہوگا ¾ ملکی سلامتی کےلئے دہشت گردوں کی تشہیر روکنے کی اشد ضرورت ہے ¾ہمیں دہشت گرد تنظیموں اور ان کے نمائندوں کو مکمل بلیک لسٹ کرناہے۔ انہوں نے کہا اہم ملکی امور پر مشاورت کے لئے میڈیا تنظیموں کے سربراہوں کو بلایا ہے۔ اجلاس میں دہشت گردی کے یک نکاتی ایجنڈے پر بات ہوگی۔ملکی سلامتی کےلئے دہشت گردوں کی تشہیر روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ہمیں دہشت گرد تنظیموں اور ان کے نمائندوں کو مکمل بلیک لسٹ کرناہے۔میڈیا خوف اور تشویش کو عوام کے قریب نہ آنے دے تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جاسکے ¾وہ جذبہ لائیں جس سے دہشت گردی کی جنگ جیتی جاسکے ¾یکجہتی اور قومی عزم کے اظہار سے عوام مضبوط ہوں گے ¾میڈیا خوف کی فضا پیدا کرے گا تو قوم میں خوف پیدا ہوگا۔ انہوں نے کہا گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں سکیورٹی کے صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے اور جون 2013ءکی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں روزانہ چھ سے سات دھماکے ہوتے تھے اور سال میں ہونے والے دھماکوں کی تعداد 2ہزار سے زیادہ تھی۔ انہوں نے کہا گزشتہ سال کے دوران 2006ءکے بعد پہلی مرتبہ ایک ہزار سے بھی کم سات سو کے قریب دھماکے ریکارڈ کئے گئے اور دہشتگرد کارروائیوں کا عالمی ریکارڈ رکھنے والے ادارے ان اعدادوشمار کی تصدیق کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کی بدولت امن و امان صورتحال میں بہتری ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا دہشتگردی ختم نہیں ہوئی بلکہ اسکا گراف نمایاں حد تک کم ہوا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا پہلے افغانستان سے روزانہ 30ہزار کے قریب اور اس سے زائد افراد بغیر سفری کاغذات کے پاکستان میں آتے جاتے تھے انکا کوئی روٹ یا ریکارڈ نہ تھا اور نہ ہی کوئی پالیسی اور ڈیٹا بینک تھا ۔ انہوں نے کہا میں حکومت کی کارکردگی اور اسکی تعریف کا دعویٰ نہیں کرتا بلکہ یہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے ۔ انہوں نے کہا ساڑھے تین برسوں میں پہلی دفعہ عملی اقدامات کئے گئے اور دہشتگردی میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ انہوں نے کہا میں نے ہمیشہ کہا کہ میں کسی چیز کا کریڈیٹ نہیں لوں گا اور نہ ہی کسی پر تنقید کرونگا کیونکہ دہشتگردی کی کارروائیوں میں کمی کا کریڈیٹ ہم سب کا مشترکہ ہے۔ انہوں نے کہا بطور وزیر داخلہ میں نے کبھی بھی کسی پر تنقید نہیں کی ۔ انہوں نے کہا ایک دفعہ ہم نے ایک جیل پر حملہ کی معلومات دیں اور اس پر اجلاس بھی ہوئے اور آخری اجلاس کے روز شام کو جیل پر حملہ ہوا جس میں لوگوں کو چھڑوایا گیا جسکی میں نے تردید نہیں کی تھی۔ وزیر داخلہ نے کہا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کریڈیٹ لینا مناسب نہیں اور اس پر سیاست کرنا گناہ عظیم ہے ۔ انہوں نے کہا سانحہ سیہون کے بعد طبعیت کی خرابی کے باوجود وزیر اعظم نے دورہ کیا اور سکیورٹی کی صورتحال کے حوالہ سے اجلاس کی صدارت کی ۔ انہوں نے کہا اس موقع پر بھی وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ پر تنقید کی گئی جس پر میں نے پہلی دفعہ کہا درگاہ کی سکیورٹی وفاقی یا صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی۔ انہوں نے کہا میں نے وہاں پر سکیورٹی کے ناقص انتظامات پر بات کی لیکن اس کی بھی زیادہ تشہیر نہیں کی ۔ انہوں نے کہا دورہ کے موقع پر اجلاس میں متعلقہ حکام سے سکیورٹی کی صورتحال کے حوالہ سے بات چیت ہوئی اور چیف سیکرٹری سندھ سے دھماکے سے پہلے کے حالات معلوم کئے تو ان کا کوئی جواب نہ تھا جس پر آرمی چیف نے بھی کہا سکیورٹی کا مناسب انتظام کیا جانا چاہئے تھا۔ چودھری نثار نے کہا سےہون واقعہ پر سندھ حکومت کے ترجمان وفاقی حکومت اور وزیر داخلہ پر تیر چلاتے رہے۔وہ بطور وزیر داخلہ کسی پر تنقید نہیں کرتے لیکن ساڑھے 3 سال میں پہلی بار سیہون واقعہ پر جواب دیا۔ وہ یہ بتائیں سیہون میں سکیورٹی کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی یا صوبائی حکومت کی۔وزیر داخلہ نے کہا 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان آسمان سے نہیں آیا ¾یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔انہوں نے کہا سیہون میں مزار پر واک تھرو گیٹس نہیں تھے، سکیورٹی نہیں تھی، بجلی نہیں تھی کیا یہ سب فراہم کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ صوبوں کو بار بار دہشت گردوں سے متعلق آگاہ کیا، صوبوں نے کسی قسم کا اقدام نہیں اُٹھایا، یہ بھی بتایا دہشت گرد کہاں سے آئے گا؟
ملاقات میں وزیرِ مملکت مریم اورنگ زیب، پارلیمانی سیکرٹری ڈاکٹر محمد افضل خان ڈھانڈلہ، پی آئی او راﺅ تحسین علی خان اور دیگر سینئر افسران بھی موجود تھے۔ میڈیا کی نمائندہ تنظیموں کے وفد میں سرمد علی، میاں عامر محمود، شکیل مسعود، اعجاز الحق، رمیزہ نظامی‘ مہتاب خان، عمر مجیب شامی، شاہین قریشی، شہاب زبیری، طاہر فاروق، عبدالباسط، کاظم خان، اور دیگر عہدیدار شامل تھے۔