فرد واحد کی ہٹ دھرمی‘ ضد اور انتقامی سیاست زہر قاتل ہے: افتخار چودھری
اسلام آباد(نامہ نگار) پاکستان جسٹس اےنڈ ڈےمو کرےٹک پارٹی کے صدر و سابق چےف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ فرد واحد کی طرف سے ہٹ دھرمی، ضد اور انتقامی سےاست ملک و قوم کےلئے زہر قاتل ہے، پانامہ کےس کے فےصلے کے بعدہماری پارٹی کا واضح موقف ہے کہ میاں محمد نوازشریف فوری طور پر اپنے وزیراعظم کے عہدہ سے مستعفیٰ ہو کر اپنے آپ کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش کریں، اگر ایسا نہیںکیا گیا توپھر اس قوم کا حق ہے کہ وزےر اعظم کو مجبور کریں کہ اُن کے مطالبے کو پورا کریں، پانامہ فےصلے مےں وزےر اعظم ہار گئے عوام کی جےت ہوئی ہے ،گزشتہ روز مقامی ہوٹل مےں پانامہ کےس کے حوالے سے پرےس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہماری پارٹی اکابرین کا ایک نمائندہ اجلاس 23اپریل کو اسلام آباد میں منعقد کیا گیا،جس میں فاضل عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو باریک بینی سے پڑھا گیا اور سمجھنے کی کوشش کی گئی، ہماری پارٹی کا یہ واضح موقف ہے "پانامہ پیپر لیکس" کا حالیہ مقدمہ حکومت وقت کے نہیں بلکہ میاں محمدنواز شریف ، ممبر قومی اسمبلی اور ان کے خاندان کے خلاف ہے۔ لیکن یہ اتفاق ہے وہ اب بحیثیت ممبر قومی اسمبلی ملک کے وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہیں اور اپنے اس عہدہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس مقدمہ کو انفرادی حیثیت سے عدالتوں میں لڑنے کی بجائے اجتماعی طورپر بحیثیت وزیراعظم انہی کا دفاع کر رہے ہیں۔ اور ایسے کرنا خلاف قانون اور اخلاق ہے ،عدالت عظمیٰ کا ایک بینچ جو پانچ فاضل جج صاحبان پر مشتمل تھا انہوں نے یقینی طور پر جو درخواستیں برائے فیصلہ ان کے روبرو پیش ہوئیں ان کو درست کہا بلکہ دو فاضل جج صاحبان نے اپنی حد تک ان درخواستوں کو قبول فرما کر حکم جاری کر دیا کہ میاں محمد نواز شریف صاحب آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 62(1)(f)کے مطابق صادق اور امین نہیں ہیں، اس لیے ممبر قومی اسمبلی رہنے کے بھی حقدار نہیں ، اگرچہ پانچ ممبر صاحبان کے بینچ میں ان دو فاضل جج صاحبان کی رائے کو کلیدی ہونے کا درجہ دیا گیا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان جج صاحبان کا فیصلہ اپنے تئیں بانڈنگ نیچر کا ہے کیونکہ اس میں آئین کی تشریح کرتے ہوئے ایک قانونی اصول وضع کر دیا گیا ہے۔ لیکن وقتی طور پر ایک تکنیکی وجہ سے عملدرآمد رک گیا ہے کیونکہ دیگر تین فاضل جج صاحبان نے میاں محمد نواز شریف صاحب ممبر قومی اسمبلی کے خلاف الزامات کی مزید چھان بین کرنے کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ جس کو ساٹھ یوم کے اندر سفارشات پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، انہوں نے کہا کہ سب لوگوں کو علم ہے کہ مزید تحقیقات کو آگے بڑھانے کے لیے جن حضرات پر کمیٹی بنائی گئی ہے وہ موجودہ حکومت کے بلاواسطہ یا بالواسطہ ماتحتوں کی تعریف میں آتے ہیں۔ اگر مسﺅل علیہ ایک ممبر کی حیثیت سے اپنے دیگر خاندان کے لوگوں کے ساتھ پیش ہوں گے تو شاید یہ کمیٹی آزادانہ طور پر کام نہ کر سکے۔