قائمہ کمیٹی کا ”میلینیم ڈویلپمنٹ گولز“ کے حصول میں ناکامی پر اظہار تشویش
اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی ،ترقی واصلاحات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر کرنل (ر)طاہر حسین مشہدی کی زیر صدار ت پارلیمنٹ ہاو¿س میں منعقد ہوا۔ کمیٹی اجلاس میں ملینیم ڈویلپمنٹ گولزکے مختلف پراجیکٹس اور ان میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے تفصیلی بحث ہوئی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ملینیم ڈویلپمنٹ گولز کے معاہدے پر دستخط کیے جاچکے ہیں۔ پیسے خرچ کیے جاچکے ہیں۔ لیکن مقصد حاصل نہیں ہوسکا اور ابھی تک کوئی بھی پراجیکٹ مکمل نہیں ہوا۔ غربت زیادہ ہوگئی ہے۔ پاکستانی عوام ایک وقت کے کھانے پر آگئی ہے۔ امیر ، امیر تر ہورہے ہیں اور غریب کا کسی نے نہیں پوچھا ۔رولنگ ایلیٹ کی تو موجیں ہی موجیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ معاہدہ بین الاقوامی معیار کا تھا ۔ عوام کو سہولیات و مراعات دینے کے حوالے سے اور کھربوں روپے خرچ بھی کیے گئے مگر تمام ٹارگیٹس اور انڈیکیٹرز پر کامیابی حاصل نہیںکی۔جس پر چیف پلاننگ ڈویژن نے کمیٹی کو بتایا کہ ملینیم ڈویلپمنٹ گولز پر دستخط 2000 میں ہوئے تھے اور یہ منصوبہ 15سال کا تھا جس میں 18اہداف اور 48اشارے تھے ۔ اس معاہدے پر 189ممالک نے دستخط کیے۔ 2000میں پاکستان میں غربت 64فیصد تھی۔ جو 2015میں کم ہوکر 39فیصد پر آگئی ۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق پاکستان میں زرعی اجناس کی قیمتوں میں نمایاں بہتری لائی گئی ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ بتایا جائے کہ مقاصد حاصل کرنے میں کتنا کامیاب ہوگئے ہیںاور کتنے ابھی تک حاصل نہیں ہوسکے ۔ سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ اجناس کی قیمتوں میں بہتری آئی ہے مگر پیداواری لاگت میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فکر مندی کی بات ہے کہ پیسے خرچ ہورہے ہیں اور مقاصد حاصل نہیں ہو پارہے ۔ آخر مسئلہ کہاں پر ہے۔ سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ کام ہوتے ہیں لیکن ان کی نگرانی کا کوئی نظام نہیں ۔وزارت برائے منصوبہ بندی ،ترقی واصلاحات ان معاملات کی نگرانی کے لیے کیا اقدامات کرسکتی ہے۔ وزارت برائے منصوبہ بندی ،ترقی واصلاحات کی بریفنگ کے دوران انکشاف ہوا کہ 48اشارے میں سے صرف 3اشارے حاصل کیے جا سکے ہیں۔ تعلیم‘ بچے اور ماں کی صحت کے حوالے سے کسی بھی انڈیکیٹر پر کامیابی حاصل نہیں کی جاسکی۔ ہر 3میں سے ایک آدمی غربت اور بھوک کا شکار ہے۔ دیہی علاقوں میں غربت زیادہ ہے۔ اراکین کمیٹی نے ملینم ڈویلپمنٹ گولز کے مقاصد کے حصول میں ناکامی پر تشویش کا اظہا ر بھی کیا۔ سینیٹر ڈاکٹر کریم احمد خواجہ نے کہا کہ سمندری پھیلاو¿ کے حوالے سے تحقیقات کرنے اور وژن 2025میں اس مسئلے کو ڈالنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی مگر کوئی کام نظر نہیں آیا نہ ہی فنڈز مختص کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے بہت اچھا کام کیا ہے مگر سپارکو پی سی ون کے حوالے سے معاملات میں تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے جس پر قائمہ کمیٹی نے سپارکو سے دو ہفتے کے اندر پی سی ون کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلی۔
قائمہ کمیٹی