حکومت نے اضافی ٹیکس لانے کا فیصلہ کرلیا، مراعات یافتہ طبقہ کو ریلیف دیا جائے گا: سراج الحق
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) امیر جماعتِ اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ بجٹ سازی میں حکومت صرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی ڈکٹیشن پر چلتی ہے اور انہی کی پالیسیوں کو جاری رکھا جاتا ہے ‘ناقص حکومتی منصوبہ بندی کی وجہ سے زندگی کے کسی طبقہ کو بھی براہ راست کوئی فائدہ نہیںہوتا بلکہ عوام بجٹ کو ڈارون حملہ سمجھتے ہوئے اس سے بچنے کی دعائیں کرتے ہیں‘40فیصد سے زائد عوام خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ حکمران ٹولے کے اللے تللے ختم ہونے میں نہیں آتے ‘حکومت اس بجٹ کو گزشتہ بجٹ کی طرح کاغذات کا ایک پلندہ نہ بنائے۔ اےک بےان مےں سےنےٹر سراج الحق نے کہا کہ حکومت 26 مئی کو اپنا پانچواں اور آخری بجٹ پیش کررہی ہے۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق آئندہ سال کے لیے پیش کیے جانے والے بجٹ میں عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے کی تیاری کی گئی ہے۔ روزمرہ استعمال کی اشیاءپر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کی وجہ سے ان اشیاءکی خریداری عوام کے بس سے باہر ہوجائے گی۔ موجودہ بجٹ میں حکومت نے 51 ارب کے اضافی ٹیکس لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر 187 ارب روپے کا اضافی ریونیو اکٹھا کیا جائے گا۔ ملک کے نامور معاشی ماہرین نے بھی مہنگائی میں اضافے اور محصولات میں کمی کی ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت سارے کا سارا بوجھ عوام پر ڈال کر مراعات یافتہ طبقے کو ریلیف دینے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ پاکستان کو مسلسل تیسرے سال برآمدات میں کی کا سامنا ہے، جو حکومتی کامیابیوں کا راگ الاپنے والوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے۔ حکومت اب تک سی پیک منصوبے سے بھی ٹھیک فائدہ نہیں اُٹھاسکی۔ ایسے حالات میں حکومت دن رات قرضے لینے میں مصروف ہے۔ عوام کو معیشت کے سیاسی اعداد و شمار بتائے جاتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے، خصوصاً سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے والے نچلی سطح کے ملازمین کو صحت، تعلیم، بچوں کو ملازمت دینے کے حوالے سے ٹرانسپیرنٹ پالیسی نہیں بنائی۔ حکومت کو چاہیے کہ سرکاری اور نجی ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافے کی پالیسی بنائے اور موجودہ بجٹ میں نچلے طبقے کے ملازمین کی تنخواہوں میں کم از کم 30 فیصد اضافہ کیا جائے۔