قومی اسمبلی : انتخابی اصلاحات بل منظور ، تحریک انصاف کا واک آؤٹ ، 62 ، 63 میں ترمیم کرینگے ، نااہلی 5 سال سے کم ہونی چاہئے : حکومت
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ بی بی سی) قومی اسمبلی کے اجلاس میں انتخابی اصلاحات بل2017ء کثرت رائے سے منظور کرلیا ہے، بل کے تحت الیکشن کمشن انتخابات سے 6 ماہ پہلے حکمت عملی مرتب کریگا۔ الیکشن کمشن کو مالی اور انتظامی خود مختاری حاصل ہو گی۔ بل میں 86 دفعات میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں، جنہیں متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ تحریک انصاف نے احتجاج کرتے ہوئے واک آئوٹ کیا۔تحریک انصاف کا مؤقف تھا انکی پیش کردہ ترامیم کو بل میں شامل نہیں کیا گیا۔ وزیر قانون زاہد حامد نے بل کی منظوری کے بعد سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا۔ بل کے متن میں کہا گیا ہے ہر مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوں گی۔ انتخابی تنازعات نمٹانے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی، نگران حکومت بڑی پالیسیوں سے متعلق فیصلہ نہیں کر سکے گی۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر 5 فیصد ٹکٹ خواتین کو دینا ہوں گی۔ سیاسی جماعتوں کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈز لینے کی پابندی ہوگئی۔ انتخابی عمل میں خواتین کی زیادہ شرکت کیلئے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ ادھر حکومت نے آئین کے آرٹیکل 62، 63 میں ترمیم کا اعلان کیا ہے ۔ وزیر قانون زاہد حامد نے قومی اسمبلی میں بتایا الیکشن کمشن بائیو میٹرک کی 300 اور الیکٹرانک ووٹنگ کی 400 مشینیں منگوا چکا ہے، ضمنی انتخاب میں اس کا تجربہ کریں گے، کامیاب ہونگے تو ترمیم کر لیں گے، ابھی انتخابات میں 10ماہ باقی ہیں۔ بی بی سی کے مطابق حکومت کا کہنا ہے وہ آرٹیکل 62، 63 میں ترمیم کا معاملہ پارلیمینٹ کی مرکزی کمیٹی میں لے کر جائے گی جس میں دیگر جماعتوں کے ارکان بھی شامل ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں انتخابی اصلاحات کے بل کی شق وار منظوری کے دوران وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ حکومت آئین کی شق 62 ون ایف میں ترمیم کا ارداہ رکھتی ہے۔ انھوں نے کہا اس شق میں نااہلی کی کوئی مدت متعین نہیں۔ اس شق کے تحت ہونے والی نااہلی کی مدت پانچ سال سے کم ہونی چاہئے۔ بی بی سی کے مطابق حزب مخالف کی جماعتوں جن میں جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف شامل ہیں نے کہا ہے وہ اس ترمیم کی مخالفت کریں گی۔ خیال رہے آئین کی یہ شق رکن پارلیمان کے صادق اور امین ہونے سے متعلق ہے۔ انتخابی اصلاحات سے متعلق بل میں حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے پیش کی جانے والی ترامیم کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ ان ترامیم میں آئندہ برس ہونے والے عام انتخابات میں جنرل نشستوں پر خواتین کو دس فیصد نشستیں دینے کے علاوہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے جیسی ترامیم شامل تھیں۔ خواتین کو عام نشستوں پر دس فیصلد کوٹہ مقرر کی ترمیم رائے شماری کے ذریعے مسترد کی گئی۔ اس کے علاوہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیومیٹرک مشین کے استعمال کے حوالے سے بھی اپوزیشن کی ترمیم مسترد کر دی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی نے پارٹی فنڈنگ کے ذرائع ظاہر نہ کرنے سے متعلق تحریک انصاف کی ترمیم مسترد کر دی جبکہ سیاسی جماعت کی جانب سے جمع کرائی گئی پارٹی فنڈنگ اور حسابات کی تفصیل الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر شائع کرنے کی شق حذف کرنے کی حکومتی ترمیم منظور کر لی گئی ہے۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد آئینی اصلاحات کا بل سینٹ میں پیش کیا جائے گا جہاں سے منظوری کے بعد اس کو قانون کا درجہ مل جائے گا۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ووٹ کا حق دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ الیکٹرونک ووٹنگ مشینیں بھی تجرباتی مراحل میں ضمنی الیکشن میں ناکام ہو گئیں۔ آرٹیکل 62، 63 پر ابھی اتفاق ہونا ہے۔ ابھی بحث یہ بھی ہے کہ نگران حکومت ہو بھی کہ نہ ہو۔ ابھی آرٹیکل 62، 63 پر بات ہونی ہے۔ اس میں ترمیم کا فیصلہ نواز شریف کی نااہلی سے پہلے ہوا تھا۔ مزید براں ذرائع کے مطابق دو بڑی جماعتیں نیب کے خاتمے کے قریب پہنچ گئیں۔ حکمران مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی قومی احتساب کمشن کے قیام پر متفق ہیں۔ نئے کمشن کا دائرہ اختیار صرف وفاقی اداروں پر ہو گا۔ نیب میں زیرسماعت تمام کیسز نئے احتساب کمشن کو منتقل ہو جائیں گے۔ وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی 55 میں سے 53 نکات پر راضی ہو گئیں۔ آئندہ اجلاس میں عوامی عہدیدار، کرپشن کی تعریف واضح کی جائے گی۔ پیپلز پارٹی فوج اور عدلیہ کو بھی نئے قومی احتساب کمشن کے دائرہ کار میں شامل کرنے پر بضد ہے۔ حکومتی ارکان پیپلز پارٹی کے مطالبے سے متفق ہو گئے۔ آفتاب شیرپائو نے پیپلز پارٹی کے مطالبے کو رد کر دیا۔ آفتاب شیرپائو نے اجلاس میں مؤقف اختیار کیا وہ کرنا چاہئے جو کیا جا سکے۔
قومی اسمبلی