ڈرپ اینڈ ایری گیشن سسٹم سے تھوڑے پانی سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے، ڈاکٹر ثروت ناز مرزا
راولپنڈی (انٹرویو:محمد رضوان ملک/ تصاویر :سجاد حیدر)پیر مہر علی شاہ بارانی زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفسیر ڈاکٹر ثروت ناز مرزا ء نے کہا ہے کہ زیادہ پیداوار کے حصول کے لئے پانی کا مناسب استعمال اور زمین کی زرخیز ی اہم کردا ر ادا کرتے ہیں۔ڈرپ اینڈ ایری گیشن سسٹم جو اب ملک میں تیار ہورہا ہےاس کو استعمال کر کے بہت تھوڑے پانی سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔سی پیک سے بھی زراعت کی ترقی پر مثبت اثرات پڑیں گے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ سے قابل کاشت رقبہ میں اضافہ ہوگا۔ نوائے وقت کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اگر فصلوں کی باقیات زمین میں ہی رہنے دیں جائیں تو اس سے بھی زمین کی زرخیزی میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔پیداوار میں اضافے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی جاری ہے ۔ کسانوں کو موبائل فونز پر اردو میں پیغامات بھیجے جاتے ہیں تاکہ وہ فصلوں کو بیماریوں کے حملوں سے بچا سکیں اور زیادہ پیداوار حاصل کر سکیں۔انہوں نے بتایا کہ پانی ذخیرہ کرنے سے زیادہ کسانوں کو یہ آگاہی فراہم کرنا اہم ہے ۔کہ وہ پانی کا درست اور بہتر استعمال کیسے کریں ۔ اچھے اور بیماریوںسے پاک بیج کا استعمال اور جڑی بوٹیوں کو تلف کر کے گندم کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا زرعی اجناس میں پاکستان خودکفیل ہو چکا ہے چاول، مکئی، گنا اور کپاس میں پہلے ہی خود کفیل تھے۔ اب گندم میں بھی خود کفیل ہو چکے ہیں۔پاکستان میں اس وقت گندم کی پیداوار 22 ملین ٹن سالانہ ہے جبکہ ہماری سالانہ ضرورت 19 ملین ٹن کے قریب ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارا اگلا ہدف تیل دار اجناس میں ملک کو خودکفیل بنانا ہے۔ تاکہ قیمتی زرمبادلہ کو بچایا جاسکے۔ کینولہ کے تیل کے حوالے سے صورت حال بہتر ہے۔ سورج مکھی،مکئی،زیتون کی کاشت پر کام ہورہا ہے چکوال میں چار ایکٹر کے قریب رقبے پر زیتون کی کاشت کی جارہی ہے۔ زیتون کو کم پانی چاہیے ہوتا ہے۔ یہ تجربہ کامیاب ہوگیا تو ملک کو بڑا فائدہ ہوگا۔ زیتون کے ٹشو پر کام کر رہے ہیں تاکہ سستے اور بیماری سے پاک پودے تیار کر سکیں۔انہوں نے بتایا کہ پھل دار اجناس کے حوالے سے بھی کام ہورہا ہے ۔ اس سے تھوڑے رقبے سے زیادہ آمدن حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہمارے کسان بھی اب راوئیتی فصلوں کو ترک کر کے پھل دار اور تیل دار اجناس کی طرف جارہے ہیں۔جن زمینوں میں گندم، جوار اور باجرہ کاشت ہوتا تھا اب وہاں کسان مالٹا اور انگور کاشت کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ طلباء کو صرف کلاس روم میں لیکچر نہیں دئیے جاتے بلکہ ہم نے چکوال میں 250 ایکٹر پر مشتمل ایک زرعی فارم بھی قائم کر رکھا ہے جہاں ہاسٹل کی سہولت بھی موجود ہے اور طلباء کو دو سمسٹر کے لئے فیلڈ میں رکھا جاتا ہے ۔بچوں کا اس کا احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ ملک کو غذا میں خودکفیل کر کے ملک کی غربت ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا ہم طلباء کو یہ تربیت بھی دیتے ہیں کہ وہ ملازمت کی بجائے اپنا کاروبار کریں ۔ ہمارے ہاں بچے چیزیں خود بناتے اور خود بیچتے ہیں ۔بچوں کو زراعت پر لیکچر کے لئے دیگر ممالک سے زرعی ماہرین کو بھی بلوایا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پانی کے ضیاع کو روکنے کے لئے ڈرپ اینڈ ایری گیشن سسٹم اب ملک میں بن رہا ہے اور اس پر کسانوں کو سبسڈی بھی دی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بارانی علاقوں کے لئے بیماریوں سے پاک بیج کی تیاری پر کام ہوتا رہتا ہے۔ اس وقت گندم کے زیادہ پیدوار دینے والے بیجوں میں چکول 50 ،اجالا اور پاکستان 2017 ء شامل ہیں ۔ کسانوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ ان بیجوں کے استعمال سے بارانی علاقوں میں بھی زیادہ گندم کی پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہائیڈروپانک سسٹم کے استعمال سے بہت کم پانی سے زیادہ سبزیاں اگائی جاسکتی ہیں اور ٹماٹر اور دیگر سبزیوں وغیرہ پر اس کے کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے۔