مضاربہ سکینڈل، ملزم مفتی ہے تو کیا ہوا،”داغ سزا“ دھونے کی استدعا منظور نہیں ہوسکتی: سپریم کورٹ
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے مضاربہ سکینڈل کیس میں شہریوں سے 2 کروڑ 65لاکھ روپے لوٹنے کے مرتکب عالم دین و نیب ملزم مفتی محمدثاقب کی ٹرائل کورٹ سے ملنے والی سز ا کے خلاف دائر اپیل مسترد کرتے ہوئے خارجکردی ہے جبکہ جسٹس دوست محمد نے ریمارکس دیے کہ عدالتیں جذبات پر نہیں بلکہ آئین و قانون کے تحت چلتی ہیں بھارت میں عدالت نے ایک ” مذہبی گرو“ کو سزاءسنائی تو و ہ رونے لگا اور معافی مانگی ، مگر عدالت نے قرار دےا کہ ہم نے وہ کرنا ہے جو آئین و قانون کہتا ہے اوربغیر کسی دباﺅ اور اثر کے سزاءدے دی گئی ، کیس کے ملزم کا عدالتی سزاءسے لگنے والا داغ (Stigma)آپ (وکیل ملزم)دھونے کی استدعالیکرعدالت آئے ہیں وہ منظور نہیں کی جاسکتی ، ترقی پذیربیرونی ممالک کی عدالتوں برما، سری لنکا،نیپال بنگلہ دیش میں بھی ایسی کوئی مثال موجود نہیں کہ وہاں کی عدالتوں نے کرپشن(گھپلے) کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہوملزم مفتی ہے تو کےا ہوا؟ایسے کئی سٹگمے لوگوں پر لگے ہوئے ہیں ، لاہور کے حلقہ این اے 120میں کالعدم جماعتوں کے افراد نے الیکشن لڑا ان پر سرپرستی کی چھتری کس کی تھی؟ان کا نیب کی کارکردگی پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ کیانیب نابینا ہے جسے کچھ نظر آتا ہے کچھ نہیں، اسی مقدمہ کے ٹرائل کے دوران ملزم مفتی ثاقب کے خلاف فراڈ کا ایک اور کیس بھی سامنے آیا ہے لیکن نیب نے اس کے خلاف دوسرا مقدمہ نہیں بنایا ہے جبکہ ٹرائل کورٹ نے بھی کمال مہربانی کر تے ہوئے اسے صرف ایک سال قید کی ہی سزا دی ہے ،جبکہ جرم کی دفعات کے تحت 14سال قید کی سزاءبنتی ہے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے منگل کے روز مضاربہ سکینڈل کیس کے ملزم مفتی ثاقب کی اپیل کی سماعت کی تو ملزم کے وکیل محمد امجد اقبال قریشی نے موقف اختیار کیا کہ ملزم محمد مفتی ثاقب پر الزام تھا کہ اس نے مضاربہ سکینڈل میں لوگوںسے 2 کروڑ 65لاکھ روپے لیئے ۔ نیب کے سپشل پراسیکیوٹر جنرل ناصر محمود مغل نے کہا کہ نیب نے معاملے کو پبلک ایٹ لارج کے طور پر لےا ، نیب آرڈیننس 1999،سیکشن 9A، سیکشن 10کے تحت ریفرنس دائر کےا کہ یہ معاملہ اجتماعی عوامی مفاد کا کیس بنتاہے ، کیس کے شریک ملزم ولی محمد نے نیب کو تما م رقم واپس کردی ۔ جبکہ ملزم کے وکیل نے کہا کہ کیس کے متاثرہ 17افراد نے بےان حلفی دیئے ہیں کہ انہیں رقم مل چکی اب کو ملزم مفتی محمد ثاقب کو سزاءنہیں دلوانا چاہتے ، یہ کیس اجتماعی عوامی مفاد کا نہیں بنتا ، ٹرائل کورٹ نے شریک ملزم کو بری کردےا جبکہ مفتی ثاقب کو ایک سال قید تین لاکھ جرمانہ کی سزاءسنائی گئی ، ملزم سزاءبھگت چکا ہے ، کیونکہ ملزم مفتی بھی ہے طلباءکو تعلیم بھی دیتا ہے اور سزاءبھی بھگت چکا ہے اس لیئے ، ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دےا جائے اور عدالتی سزاءکا داغ ختم کرنے کے لیئے کیس میں بری قرار دےا جائے تاکہ ملزم پر لگا ہوادھبہ صاف ہو سکے ملزم پراپرٹی کا کام کرتا ہے اس نے مضاربہ کے تحت کسی سے رقم نہیں لی وہ لوگوں کو منافع دیتا رہا ،تمام رقم کے تقاضے پر اس نے متاثرہ لوگوں کو ”مروا ہاﺅسنگ سوسائٹی “ میں پلاٹ دینے کا وعدہ کےا تھا ، ریکارڈ میںبھی کہیں مضاربت ثابت نہیں ، جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ عوام سے رقم لیکر جو شرائط طے کی گئیں وہ مضاربت کا معاہدہ ہی ہے چاہے اسے الفاظ میں نہیں لکھا گےا ، قانون کے مطابق کسی فرد کو لوگوں سے پیسے اکھٹے کرنے کی اجازت نہیں یہ کام صرف بینک کرسکتے ہیں، اگر آج آپ کی استدعا منظور کی گئی تو ایک لائن لگ جائے گی جبکہ وکیل کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کرسکے ہیں بعدازاںعدالت نے ان کی استدعا مسترد کرتے ہوئے درخواست خارج کر دی ۔