سیاسی جماعتوں کے تحفظات ، حکومت نے فاٹا کیلئے رواج ایکٹ 2017 واپس لینے کا فیصلہ کرلیا
اسلام آباد (اے پی پی + آئی این پی) وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں قانونی، انتظامی اور دیگر اصلاحات لانے اور قبائلی عوام کے آئینی حقوق کو یقینی بنانے کیلئے سینٹ کی پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میںارکان نے فاٹا میں اصلاحات کیلئے بنائی گئی کمیٹی کی مرتب کردہ رپورٹ اور لائحہ عمل کے حوالہ سے اپنا نکتہ نظر پیش کیا۔ ارکان کمیٹی نے چیئرمین سینٹ کے اس بروقت اقدام کو سراہا اور کہا کہ فاٹا میں انتظامی و قانونی اور آئینی اصلاحات لازمی ہیں تاکہ فاٹا کے عوام کی محرومیوں کو دور کیا جا سکے اور فاٹا کے عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ ریاست و سرحدی امور کے وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کو فاٹا کیلئے اختیار کئے گئے اصلاحاتی عمل پر تفصیلی بریفنگ دی اور مختلف شعبوں میں اصلاحات کے حوالہ سے جامع انداز میں حکومتی مؤقف کمیٹی کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ایف سی آر جیسے قانون کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی اور اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا جبکہ رواج ایکٹ کو بھی حکومت واپس لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کو این ایف سی میں حصہ دینے کے حوالہ سے بھی مزاحمت پیش آ رہی ہے، راہداری اور پرمٹ نظام کے باعث مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ پولیٹیکل ایجنٹس کی جانب سے ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسا لائحہ عمل ضروری ہے جس کے تحت فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام سے قبل بنیادی مسائل کو حل کیا جائے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ کمیٹی کے اجلاس میں سیر حاصل بحث ہوئی جن کی بدولت تفصیلی سفارشات پر مرتب مسودہ تیار کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے اس سلسلہ میںسینٹ سیکرٹریٹ کو ہدایات جاری کیں کہ پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی کے تمام اجلاسوں اور فاٹا اصلاحات کے حوالہ سے بنائی گئی حکومتی کمیٹی کی روشنی میں سفارشات کا مسودہ تیار کیا جائے جس پر اراکین کی آراء بھی لی جائے گی۔ آئی این پی کے مطابق حکومت نے مختلف جماعتوں کے تحفظات کے بعد فاٹا کے رسم و رواج کے مکمل تحفظ اور ملک کے قانون کو علاقے میں متعارف کرانے سے متعلق ’قبائلی رواج بل 2017‘ واپس لینے کا فیصلہ کرلیا۔ اجلاس کے دوران وزیر سیفران نے بتایا کہ حکومت رواج بل واپس لینے جا رہی ہے، کیونکہ اس پر مختلف جماعتوں کے تحفظات ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں پاکستان کے قوانین مرحلہ وار لاگو کیے جانے پر غور کیا جارہا ہے اور فاٹا کا 5 سال سے پہلے خیبر پی کے میں انضمام کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پہلے 2018 کے الیکشن میں فاٹا کے ممبران کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں لانے کی تجویز تھی، لیکن اب تجویز دی گئی ہے کہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی میں فاٹا ارکان کو شامل کیا جائے۔ فاٹا میں امن کی واپسی لازمی ہے، وہاں کے حالات کے باعث ایسے ہی وہاں سے فوج کو نکال دینا ممکن نہیں ہے، لہٰذا فوج کی واپسی مرحلہ وار ہوگی۔ وفاقی وزیر کے مطابق فاٹا کے تمام تر معاملات اس وقت فوج کے کنٹرول میں ہیں اور پولیٹیکل ایجنٹ بھی فوج کے مشورے کے بغیر کام نہیں کر سکتا۔ وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار بڑھانے سے انضمام کا عمل شروع تصور کیا جائے گا جبکہ لوگوں نے فاٹا کو فی الفور خیبر پی کے میں ضم کرنے کی مخالفت کی ہے۔ چیئرمین نے سوال کیا کہ کیا حکومت چیف آپریٹنگ افسر کے حوالے سے قوانین میں یہ ترمیم کرنے کو تیار ہے کہ اس عہدے پر کسی فوجی افسر کو تعینات نہیں کرے گی؟ اس حوالے سے وزیر سیفران نے کہا کہ چیف آپریٹنگ افسر کے عہدے کے لیے کسی فوجی افسر کی تجویز زیر غور نہیں، اجلاس میں سی او او کے عہدے کے لیے آرمی چیف نے ایک سویلین افسر کا نام تجویز کیا تھا۔ساتھ ہی انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ فاٹا میں ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے بغیر ٹینڈر کے ایف ڈبلیو او اور این ایل سی کو نہیں دیئے جائیں گے۔
رواج ایکٹ