بد عنوانی کی روک تھام، پلی بارگین ختم، نیب کا نیا نام احتساب کمیشن ہو گا
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ) وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا ہے کہ ملک میں بد عنوانی کی روک تھام کے لئے نئے طریقہ کار اور قانون کی ضرورت ہے، پارلیمانی کمیٹی نے نئے قانون کے بیشتر نکات پر اتفاق رائے کر لیا ہے، بل کو جلد حتمی شکل دے دی جائے گی۔ نئے قانون کے تحت قومی احتساب بیورو کا نام قومی احتساب کمیشن ہوگا۔ پلی بارگین کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس کی اب گنجائش نہیں ہوگی۔ سندھ اسمبلی نے نیب کے حوالے سے جو قانون منظور کیا ہے اس پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ اگر ہم بلا امتیاز احتساب کی بات کرتے ہیں تو قانون کا پورے ملک میں اطلاق ہونا چاہئے۔ بدھ کو ایوان بالا میں احتساب کے نئے طریقہ کار کی ضرورت کے حوالے سے تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے زاہد حامد نے کہا کہ احتساب کے نئے طریقہ کار کی ضرورت ہے، 2006ءمیں میثاق ءجمہوریت میں اس حوالے سے بنیادی اصول دیئے گئے، پیپلز پارٹی کے دور میں ایک بل تیار کیا گیا اور ہمارا خیال تھا کہ میثاق جمہوریت کے حوالے سے بنیادی اصول وضع کئے جائیں گے۔ کہا گیا کہ مسلم لیگ (ن) نے اس کی مخالفت کی تھی حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ اس بل میں بدعنوانی کی سزاء14 سال سے کم کر کے 7 سال کر دی گئی، ہم اس بل کو وسیع البنیاد بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس بل پر اختلافی نوٹ بھی دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں بہت سے پرائیویٹ ممبرز بل منظور ہوئے ہیں۔ 17 اگست 2016ءکو ہم نے ایک تحریک پیش کی تاکہ احتساب کے قانون پر نظرثانی کی جا سکے جس کے بعد سینیٹ سے بھی اس کی منظوری ہوئی۔ ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی جس کے کئی اجلاس ہو چکے ہیں۔ کئی شقوں پر اتفاق ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی گئی ہے۔ توقع ہے کہ بل کی باقی دو شقوں پر بھی اتفاق ہو جائے گا۔ احتساب کمیشن کو انتظامی اور مالی خودمختاری دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ قومی احتساب بیورو کو قومی احتساب کمیشن کا نام دیا جائے گا۔ ایک چیف پراسیکیوٹر ہوگا۔ کمیشن کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین اور ممبر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوانی پر 14 سال سزا دی جا سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ پلی بارگین کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔ نئے قانون میں بدعنوانی کرنے والا سزا سے نہیں بچ سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی نے ایک قانون منظور کیا ہے کہ نیب قانون کا صوبے پر اطلاق نہیں ہوگا، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ صوبائی حکومت نے یہ موقف بھی اختیار کیا ہے کہ یہ صوبائی معاملہ ہے،کیا وفاق بدعنوانی کے خاتمے کے لئے بل منظور نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ گورنر سندھ نے صوبائی بل کی منظوری نہیں دی۔ ہم درخواست کرتے ہیں کہ صوبائی حکومت کو آگاہ کیا جائے کہ اگر ہم بلا امتیاز احتساب کی بات کرتے ہیں تو قانون کا پورے ملک میں اطلاق ہونا چاہئے، ہم امید کرتے ہیں سندھ اسمبلی اپنے بل پر نظرثانی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی بھی اس حوالے سے ایک بل منظور کر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کا کام اختتامی مراحل میں ہے۔ امید ہے یہ جلد مکمل ہو جائے گا۔قبل ازیں تحریک پر سینیٹر فرحت اﷲ بابر، سینیٹر تاج حیدر، سینیٹر طاہر حسین مشہدی، سینیٹر سحر کامران اور عثمان کاکڑ نے بھی اظہار خیال کیا۔ ڈی ایچ اے لاہور اور ڈی ایچ اے راولپنڈی میں مبینہ کرپشن سکینڈل کے حوالے سے تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا ہے کہ ڈی ایچ اے لاہور سٹی پراجیکٹ کے لئے اراضی کے خریداری سکینڈل میں ملوث تین افراد گرفتاری کے بعد ضمانت پر ہیں۔ دو ملزموں کو اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ اے سٹی پراجیکٹ شروع کرنے کے لئے 25 ہزار کنال اراضی خریدنے کا پروگرام تھا۔ 12 جون 2010ءکو اس پر کام شروع ہوا لیکن اس پراجیکٹ کا کوئی پلان نہیں تھا اور نہ ہی این او سی حاصل کیا گیا۔ اس اراضی کے 10421 متاثرین ہیں،13 ہزار کنال زمین خریدی گئی،اب تک 1200 کلیمز وصول ہوئے ہیں۔ تمام ملزموں کی جائیداد بھی منجمد کر دی گئی ہے۔
وفاقی وزیر قانون
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ) الیکٹرانک کرائم ایکٹ پر جاری بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر انوشہ رحمن نے کہا کہ اس قانون کے عمل درآمد کا اختیار ایف آئی اے کے پاس ہے۔ دنیا میں کسی بھی طور پر انٹرنیٹ بند کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔اس قانون میں تین جرم کے علاوہ 180 دیگر جرائم ہیں عدالت کے حکم کے بغیر ایف آئی اے کسی کو گرفتار نہیں کر سکی۔ اس سے قبل ایوان بالا میں الیکٹرانک کرائم ایکٹ پر بحث کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ جب قانون بن رہا تھا تو بہت سارے وعدے کئے گئے۔ ہم اس کو پاس نہیں کرنا چاہتے تھے مجھے یہ اندیشہ کھائے جاتا تھا کہ اس بل کو سٹیک ہولڈر کے طور پر تلوار کے طور پر ایک ہتھیار کے طور پر ریاست آزادی اظہار رائے کے خلاف استعمال کرے گی۔ سینیٹر اعتزاز احسن کا کہناتھاکہ بدقسمتی ہے وہ بچیاں جن کی تصاویر ایڈٹ کرکے برہنہ بنائی گئی ہیںان کو تو اس قانون سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مگر آزادی رائے کو دبانے کیلئے قومی سلامتی کی ڈھال لے کر یہ قانون تلوار کی طرح چمکنا شروع ہوا، جو ریاستیں قومی سلامتی پر خود کو استوار کرتی ہیں کے برعکس وہ ریاستیں جو ویلفیئر اسٹیٹ ہوتی ہیں وہ چلتی رہتی ہیں ۔ سوشل میڈیا پر حکومت پابندیاں لگانا چاہتی ہے سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی ایسی چیز ہے جیسے ہوا میں تلوار چلاتے رہیں گے لیکن وہ کسی کو زخمی نہیں کر سکے گی سائبر کرائم کا بل شہری کو تبدیل ہونے سے بچانے کا ہے شہری کے تحفظ کا ہے اس ٹیکنالوجی کے خلاف لڑنے کی بجائے اس کو سیکھنے کی کوشش کریں اس کو سمجھانے اور بڑھانے کی کوشش کریں پاکستان کا شہری مضبوط و خوشحال ہوگا۔ تو اس ملک کی سلامتی مضبوط ہوگی ۔ سینیٹ کا اجلاس جمعرات کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ بدھ کو ایوان بالا میں پانامہ پرجے آئی ٹی کی رپورٹ پر بحث آج تک موخر کر دی گئی ۔ چیئرمین سینٹ اس موقع پرکہا کہ پوری دنیا میں جے آئی ٹی رپورٹ پر بحث ہو رہی ہے سپریم کے باہر سیاستدان اور شام کو ہر ٹی وی شو پر اس پر بحث ہو رہی ہوتی ہے۔ وزیر قانون نے مخالفت کی اور کہا کہ اس وقت یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس پر بحث کرنا درست نہیں ہے اور رولز اجازت نہیںدیتے ہیں سپریم کورٹ کے باہر باتیں کرنے والوں پر کوئی رول لاگو نہیںہوتا ہے جبکہ ایوان بالا کے تو رولز ہیں۔ اس پر چیئرمین سینٹ نے رولز پڑھ کر بتایا کہ اور کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر ایوان بالا میں بحث کرنے میں کوئی حرج نہیںہے ۔