طاہر القادری سڑکوں پر آئے تو ہم ساتھ ہوں گے، شہباز ، رانا ثناء کیخلاف دہشتگردی کا مقدمہ ہونا چاہئے: عمران
اسلام آباد (نا مہ نگار) چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری سڑکوں پر آئے تو ہم بھی ساتھ ہوں گے‘ شہباز شریف اور رانا ثناء اﷲ کے خلاف دہشت گردی کا کیس ہونا چاہئے‘ ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو انسداد دہشت عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ عمران خان نے کہا کہ فلسطینیوں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ مسلمانوں کی طرف سے ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کرتا ہوں۔ فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ اور لوگوں کو شہید کیا گیا، تمام مسلم ممالک کو ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف کھڑا ہونا چاہئے۔ ٹرمپ جیسے لوگ مسلمانوں کو انسان نہیں سمجھتے، ہمارے وزیراعظم کو ترک وزیراعظم کی طرح کھڑا ہونا چاہئے،عمران خان نے کہا کہ اسرائیلی دارالحکومت کی مقبوضہ بیت المقدس منتقلی پر افسوس ہے پہلے فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سفارتخانہ منتقل کرنے کی مذمت کرتا ہوں،بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرکے امریکہ نے اسرائیل کو تحفہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے جس طرح ڈانس کیا انہیں مزید پرفارمنس دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اور رانا ثناء اﷲ کو فوری استعفیٰ دینا چاہئے۔ سانحہ ماڈل ٹائون میں خواتین اور نہتے لوگوں کو گولیاں ماری گئیں۔ نجفی رپورٹ میں شہباز شریف کا جھوٹ سامنے آیا، عابد شیر علی کے والد نے کہا رانا ثناء اﷲ نے اٹھارہ قتل کئے ہیں۔پرامن احتجاج اور دہشت گردی میں فرق ہے لوگ اکیس دن فیصد آباد بیٹھے رہے احسن اقبال نے کہا تھا تین گھنٹے میں فیض آباد صاف کرادوں گا۔ انہوں نے کہا کہ نہتے لوگوں کو دن دیہاڑے قتل کردینا اصلی دہشت گردی ہے۔ پیسہ لوٹنے والوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ اڈیالہ جیل بھجوائوں گا ۔عمران خان نے کہا کہ ہم نے صاف اورشفاف الیکشن کے لئے پرامن احتجاج کیا پھربھی ہم پرالزامات لگائے گئے، آمرکی گود میں پلنے والے میرے خلاف مقدمات درج کررہے ہیں۔ دریں اثنا اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی عبوری ضمانت میں مزید چار روز کی توسیع کر دی ہے اور انھیں 11دسمبر کو دوبارہ پیش ہونے کا حکم دیا ہے جبکہ عمران خان نے عدالت کے دائرہ کار کو چیلنج کیا ہے۔ اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے خلاف پی ٹی وی، پارلیمنٹ حملہ، ایس ایس پی تشدد اور پولیس سٹیشن سے زبردستی کارکنوں کے چھڑانے کے الزامات میں درج مقدمات کی سماعت کی۔عمران خان کے ہمراہ ان کے وکیل بابراعوان ایڈووکیٹ نے عدالت میں مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کو چیلنج کیا اور کہا کہ کیا شہریوں کا جمہوری حقوق کیلئے جدوجہد کرنا دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ بابراعوان کی طرف سے عدالت کے دائرہ کار کو چیلنج کرتے ہوئے فیض آباد دھرنے میں مقدمات ختم کرنے کا حوالہ دیاگیا۔ جس پر جج شاہ رخ ارجمند نے ریمارکس دیئے کہ دھرنے والوں کیخلاف مقدمات ختم نہیں ہوئے ملزم ابھی تک ضمانتیں کروا رہے ہیں، تین چار سو افراد کے پاس تو مچلکے ہی نہیں، قائدین جا چکے ہیں اور کارکنان جیل میں پڑے ہیں۔ بابراعوان نے حکومت اور تحریک لبیک کے معاہدے کی شقیں پڑھ کر عدالت کو سنائیں اور کہا کہ قانون ہر شہری کیساتھ یکساں سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ، عدالت میں پراسیکیوٹر کی جانب سے رپورٹ بھی پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ عمران خان نے اپنے کارکنوں کو کہا کہ آئی جی کو مارو اور وزیراعظم ہائوس پر قبضہ کرلو۔ پراسیکیوٹر کا موقف تھا کہ عمران خان کیخلاف اپنے کارکنوں کو اکسانے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں اور ان کیخلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ دس کے تحت کارروائی ہونی چاہئے۔انھوں نے کہا کہ عمران خان پر انسداد دہشت گردی کی دس دفعات کا اطلاق ہوتا ہے۔ عمران خان کی درخواست پر عدالت نے مقدمہ سیشن کورٹ کو بھجوانے کیلئے پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر جواب طلب کر لیا ہے۔ کیس کی مزید سماعت پیر11دسمبر کو ہو گی،عمران خان اپنے وکیل کے ساتھ اس وقت تک روسٹم پر ہی کھڑے رہے جب تک بابر اعوان نے اپنے دلائل مکمل نہیں کر لیے۔