سخت سکیورٹی، ارکان اور صحافیوں کو پارلیمنٹ پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا
اسلام آباد ( محمد فہیم انور+ سجاد ترین+ راجہ عابد+ رستم اعجاز ستی) قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر سکیورٹی کے خصوصی اقدامات کئے گئے تھے، پارلیمنٹ کو جانے والے راستوں پر پولیس ناکوں پر اضافی نفری تعینات تھی۔ پارلیمنٹ تک پہنچنے کے لئے خصوصی طور پر مختلف جگہوں سے راستے کھولے گئے تھے، اس کے باوجود صحافیوں، ارکان پارلیمنٹ اور مہمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، پارلیمنٹ کی عمارت کے چاروں جانب پاک فوج کے اہلکار انتہائی مستعدی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی پر موجود تھے جبکہ پارلیمنٹ کے احاطہ میں دھرنوں کے شرکاء آرام اور سکون سے بیٹھے رہے۔ اجلاس کا وقت 11 بجے تھا، سینٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان کی آمد مقررہ وقت سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی۔ مشترکہ اجلاس کے لئے ارکان پارلیمنٹ کی نشستیں حروف تہجی کے حساب سے لگائی گئی تھیں، ارکان کی نشستوں تک رہنمائی کے لئے قومی ا سمبلی کا عملہ مشترکہ اجلاس کے دوران ارکان کی رہنمائی کرتا رہا۔ اجلاس سے قبل ارکان ٹولیوں کی شکل میں گپ شپ اور موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے رہے۔ اراکیں کی جانب سے جاوید ہاشمی کی پذیرائی دیکھتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے بھی کچھ دیر کیلئے اپنی تقریر روک دی۔ اعتزاز احسن اورمخدوم جاوید ہاشمی کی تقریر کے دوران وفاقی وزراء چوہدری نثارعلی خان، اسحاق ڈار، خواجہ آصف سمیت دیگر مسلم لیگی ارکان پارلیمنٹ وزیر اعظم نواز شریف کی نشست کے قریب آکر سرگوشیاں کرتے رہے۔وفاقی وزیر چودھری نثار علی خان ، چوہدری اعتزاز احسن، محمود اچکزئی ، مخدوم جاوید ہاشمی اور مولانافضل الرحمن کی تقاریر کے دوران وزیر اعظم مسلسل نوٹس لیتے رہے اور کچھ نوٹس انہوں نے اپنی جیب میں بھی رکھے۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ مشترکہ اجلاس سے وزیراعظم بھی خطاب کریں گے مگر انہوں نے ایوان سے خطاب نہیں کیا جیسے ہی سپیکر نے اجلاس بدھ کی صبح تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا، وزیراعظم فوراً جاوید ہاشمی کی نشست کی جانب گئے اور ان سے گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ کیا۔ ان کے بعد وزیراعظم اے این پی کے سینیٹرز کے پاس بھی گئے اور ان سے ان کی خیریت دریافت کرتے رہے۔