بائیو میٹرک تصدیق کے باوجود کئی غیر قانونی سمیں تاحال چل رہی ہیں
اسلام آباد(عاطف خان+دی نیشن رپورٹ) حکومت کی طرف سے موبائل صارفین کی سموں کی دوبارہ تصدیق کے عمل کو مکمل ہوئے 2 ماہ بیت چکے تاہم اب بھی اس حوالے سے کافی سوالات جواب طلب ہیں پشاور میں حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت سموں کی دوبارہ تصدیق کا عمل شروع کیا گیا تھا تاکہ غیرقانونی سمیں جو دہشت گردی کے واقعات میں استعمال ہورہی ہیں کی روک تھام کی جاسکے اس سال کے شروع میں پی ٹی اے کے مطابق پاکستان میں 103 ملین سمیں جاری کی گئیں موبائل کمپنیوں کو ری ویری فکیشن کے لیے 90دن کا وقت دیا گیا تھا اور اس کے لیے انہیں چائنہ ساخت کی بائیومیٹرک مشینیں بھی فراہم کی گئیں تاہم ان مشینوں کے حوالے سے اکثر شکایات سامنے آئیں جن میں صارفین سے اوورچارجنگ کی شکایت بھی تھی مشینوں کے ذریعے بڑی تعداد میں کمپنیوں کے پرانے صارفین کی بائیومیٹرک تصدیق بھی ممکن نہیں ہوسکی ان تمام مسائل کے باوجود پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ مہم کے دوران 78 ملین سمیں بند کی گئیں تاہم اب بھی ایک صارف کے نام پر کئی سمیں چل رہی ہیں اور اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ اگر کوئی سم دہشت گردی میں استعمال ہوتی ہے تو اس کا مالک اس کا ذمہ دار ہوگا یا نہیں اور نہیں تو کون ہوگا بہت سی سمیں تاحال بند نہیں کی گئیں۔ موبائل کمپنیوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اگر مہم کے دوران کسی کی سم کی ویری فکیشن نہیں ہوسکی تو وہ کمپنی کے دفتر آکر کرواسکتے ہیں۔