انڈیا نے عالمی قانون توڑا: سندھ اسمبلی، بھارت سرجیکل سٹرائیکس کی جرات نہیں کر سکتا: قادر بلوچ
اسلام آباد+ کراچی (وقائع نگار خصوصی+ خبر نگار خصوصی+ ایجنسیاں) سندھ اسمبلی نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی جبکہ قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ بھارت سرجیکل سٹرائیکس کی جرأت نہیں کر سکتا۔ سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے نثار کھوڑو، ایم کیو ایم کے سید سردار احمد اور فنکشنل لیگ کے نند کمار نے بھارتی جارحیت کے خلاف قرارداد پیش کی۔ جس میں کہا گیا بھارت مسلم اکثریتی کشمیر میں طاقت کے زور پر قابض ہے، 1947 سے کشمیر میں ظلم ڈھا رہا ہے۔ بھارت نے لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کر کے اقوام متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ بھارت ہٹ دھرمی سے باز آجائے۔ ایوان بھارتی جارحیت کی مذمت کرتا ہے اور بھارتی جارحیت کے نتیجے میں جام شہادت نوش کرنے والے پاک فوج کے 2 جوانوں امتیازعلی اورجمعہ خان کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ بعد ازاں اسمبلی نے متفقہ طور پر قرارداد منظورکرلی۔ قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے ریاستوں و سرحدوں کے وفاقی وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ بھارت نے لائن آف کنٹرول پر سرجیکل سٹرائیک نہیں کی نہ وہ اس کی جرأت کرسکتا ہے۔ لائن آف کنٹرول کے ایک انچ کی بھی خلاف ورزی نہیں ہوئی، بھارت ہمیں اکسا رہاہے، سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ انہوں نے اس لئے کیا ہے کیونکہ وہ اپنے عوام کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کے خلاف ایسا قدم اٹھانا کوئی آسان بات نہیں، اگر کوئی ایسا موقع آیا تو پاکستان کا بچہ بچہ اس ملک کا دفاع کرے گا اور پاک فوج ملک کے دفاع کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ ارکان کی تقاریر سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ حکومت ملک کے موجودہ حالات سے بے خبر ہے جو درست نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا ہے۔ وزرائے اعلیٰ اور قومی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ ہماری افواج کو جو تجربہ حاصل ہے بھارتی افواج اس کا تصور نہیں کرسکتی۔ قبل ازیں پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے قومی اسمبلی کو وزیر دفاع اور مشیر خارجہ کی جانب سے باضابطہ اعتماد میں نہ لینے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ایوان کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ بھارت سرجیکل سٹرائیکس کا دعویٰ کررہا ہے۔ پارلیمنٹ میں حکومت کی طرف سے خاموشی ہے جنگ کا سماں ہے اور لگتا ہے ہمیں اگلے ہفتے آگاہ کیا جائے گا۔ اجلاس میں پاک فوج کے دو شہید جوانوں کیلئے فاتحہ خوانی بھی کرائی گئی۔ اجلاس میں قواعد معطل کر کے فاٹا اصلاحات پر بحث کرائی گئی۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے بھی فاٹا کو خیبر پی کے میں ضم کرنے کی مخالفت کردی۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ فضل الرحمان نے فاٹا کے حوالے سے جو کچھ کہا میں اس کی سو فیصد حمایت کرتا ہوں، فاٹا اصلاحات کی کمیٹی کے فیصلوں کو فاٹا کی عوام پر مسلط نہ کیا جائے،اگر ایسا ہوا توبہت بڑی مزاحمت ہوگی،فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ فاٹا نے پاکستان کو خطرات سے دوچار کیا،یہ رپورٹ پوری دنیا پڑھے گی دنیا کو ہم کیا پیغام دینا چاہتے ہیں،آپ نے خود فاٹا کو میدان جنگ بنایا اور آج ان پر یہ الزامات لگائے جارہے ہیں، جنگ کی طرف نہ جایا جائے،اگر جنگ ہوئی تو پاکستان اور افغانستان دونوں ٹوٹ جائیں گے،حزب اسلامی کے حکمت یا ر اور افغان حکومت کے مابین قیام امن کیلئے ہونے والے معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ شیریں مزاری،شہریار آفریدی، شازیہ مری نے محمود خان اچکزئی کے خطاب پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس سیاستدان کے بزرگوں نے آئین پاکستان پر دستخط کئے۔ وہ آج آئین پاکستان کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے اور انگریز کے بنائے ہوئے کالے قانون ایف سی آر کے خاتمے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ فاٹا پاکستان کا حصہ ہے اور اسے آئینی حصہ بنانے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے،ہمیں افغانستان یا کسی اور ملک سے ڈرا کر اپنے ملک کے کسی حصے سے دستبردار نہیں کرایا جاسکتا، فاٹاکے عوام کی اکثریت ایف سی آر کا خاتمہ اور آئین پاکستان کی عمل داری چاہتے ہیں۔ جے یو آئی کے جمال دین نے کہا کہ فاٹا کو کسی دوسرے صوبے میں ضم کرنے کی بجائے الگ صوبہ بنایا جائے۔ افغانستان میں موجود پاکستانی مہاجرین کو وانا اور میران شاہ کے راستے واپس آنے دیا جائے کیونکہ افغان حکومت ان کو تنگ کر رہی ہے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ایسی کیا جلدی تھی کہ ملک اس وقت بحرانی کیفیت میں ہے اور اس وقت ایسا علاقہ جس کی ملکی اور بین الاقوامی اہمیت ہے اس پر قومی اسمبلی میں بحث کرائی جا رہی ہے؟ملک میں کچھ لوگوں نے سچ کہنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ فاٹا اور خیبر پی کے کیلئے الگ الگ گورنر مقرر کیا جائے اور فاٹا میں انتخابات کے ذریعے گورنر منتخب کیا جائے۔ مائنس ون پیپلزپارٹی کی باتیں کی گئیں اس سے کیا ملا ہمیں؟مائنس نوازشریف اور مائنس الطاف حسین جیسی باتیں نہ کی جائیں،اگر پاکستان کو بچانا اور چلانا ہے تو آئین پر عملدرآمد کرایا جائے اور آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف سب کو متحد ہوکر کھڑے ہوجانا چاہیے،اگر ایسا نہیں کرنا تو میرا کیا ہے ایک چادر ہے میرے پاس وہ لیکر وزیرستان،کابل یا کہیں اور چلاجائوں گا۔ آن لائن کے مطابق اچکزئی نے پرانے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے کہا ہے کہ 342 کے ایوان میں کسی کو بھی قومی ترانہ نہیں آتا اور بات پاکستان کی کرتے ہیں۔فاٹا کو نہ چھیڑا جائے یہ بین الاقوامی مسئلہ بن جائے گا۔ ایوان میں موجود ارکان نے اپنی تقاریر کے ذریعے اچکزئی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ فرسٹ پاکستان، صرف پاکستان کل بھی پاکستان آج بھی پاکستان۔